ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2008 |
اكستان |
|
جواب اَز حضرت شیخ الحدیث مکرم و محترم حضرت مفتی صاحب زادت معالیکم! بعدسلام ِمسنون ،اِسی وقت شدیدانتظام میں گرامی نامہ مورخہ ١٤ذ ی الحجہ حجازی ٢٤ ذی الحجہ کوپہنچا، مجھے شدت سے اپنے خط کے پہنچنے کاانتظارتھا گرامی نامہ سے بہت ہی مسرت اوراطمنا نیت ہوئی کہ جناب کوخودبھی اِس کااحساس ہوااورمیراعریضہ محرک ہو، یہ ناکارہ توکئی سال سے خط بھی سننے میں اور لکھوانے میں دُوسروں کا محتاج ہے،اِس داعیہ سے کہ میرے خیالات کوآپ اپنے کلام میں شرح وبسط سے تحریرفرمائیں گے بے حدمسر ت ہوئی، یقیناًوہ زیادہ مفیدہوگی، میری تحریرتوبے ربط وبے سر وپاہوتی ہے، نہ تحریرکی مشق نہ تقریرکی،میں نے توخودبھی درخواست یہی کی تھی کہ اِس مضمون کی روشنی میں جناب خودتحریرفرما دیں توزیادہ مفیدہوگا۔ اِس ناکارہ کواپنے اکابرکے حالات سننے پڑھنے کاتوبچپن سے اشتیاق ہے۔ شاید پہلے بھی لکھا ہوگا کہ اَشرف السوانح ،اسیرمالٹا،حضرت میاں صاحب کی تحریرفرمودہ ''حیات شیخ الہند''جوجوچھپتی رہی ایک ایک رات میں دیکھتارہا، جب صحت اورشباب تھاتوساری رات جاگنابہت آسان تھا،اب اپنی محتاجگی اور معذوری نے بہت پریشان کررکھاہے۔ فضائل ِذکرکامضمون آپ نے سن لیااورایک عنوان کے ساتھ جناب کے ذہن میں مضمون بھی آگیا اِس سے بہت مسرت ہوئی ،یہ زیادہ مفیدہو گا۔ جناب نے پہلے قلبی دورہ کے بعدجو مایوسانہ خیال لکھا میں تواُس میں آپ کاہم خیال نہیں ہوں، میراتوخیال یہ ہے کہ اِس ضعف وپیری اورمایوسی عن الحیات میں بھی جونیک خیال دل میں آئے اُس کوضرور شروع کردیاجائے کہ بعدوالوں کے لیے اُسوہ بنے اورکام کرنے والوں کے لیے رہنما ئی کاسبب بنے، میراخیال یہ ہے ا وربہت قوت سے ہے کہ اکابرکی آنکھیں جنہوں نے دیکھی ہیں یاصحبت اُٹھا ئی ہے اُن کوبعدمیں آنے والوں کے لیے جواَکابرکی نگاہوں سے بھی محروم ہیں،جوہوسکے متن یامسودہ کی طرح ضرورسامنے کردیناچاہیے کہ کم سے کم اُن کے لیے اُس ماحول سے تومناسبت تورہے ۔(میں تو) جناب کے دُوسرے دورہ کے بعدکے خیال کاہمنواہوں، ضرورجوامورِخیربڑوں سے حاصل کیے ہیں وہ ربط بے ربط