ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
رؤیت ِ ہلال اور اہل سرحد ( جناب مولانا تنویر احمد صاحب شریفی،کراچی ) ہمارے دَور میں اگر چاند دیکھنے کا رواج ہے تو صرف رمضان المبارک اور عید الفطر کا ہے باقی مہینوں میں اگر تھوڑا بہت اہتمام ہوتا ہے تو ذی الحجہ کے چاند کا ہوتا ہے حالانکہ چاند کا دیکھنا کوئی مشکل نہیں ہے بشرطیکہ عادت ڈال لی جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کام صرف مولویوں کا ہے کہ دیکھنے کا اہتمام وہ کریں اور ماہرین ِ فلکیات موسم کے اعتبار سے چاند کے محل وقوع، اُس کی پیدائش، اُس کی عمر اور نظر آنے یا نہ آنے کا امکان بتلادیا کریں۔ جب چاند تیس کو ہم دیکھتے ہیں اور اگر وہ اپنی عمر کے اعتبار سے موٹا ہو تو ہر اَیرا غیرا کہتے دکھا گیا ہے ''یا ر !یہ توکل کا چاند ہے، جب ہی تو اِتنا موٹا ہے، بس مولویوں کو چاند ہی نظر نہیں آتا۔'' خود دیکھنے کا اہتمام نہیں کیا اور الزام لگا مولویوں پر۔اتنی بد گمانی قائم کرنے کو ہمارے دین میں قیامت کی علامات میں بتلایا گیا ہے۔ میں نے اپنے جدِ امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد مدظلہم سے بارہا سنا ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے دہلی میں چاند میںفیصلے کے دو بزرگ معتبر تھے۔ ایک مفتی اعظم حضرت مولانا محمد کفایت اللہ دہلوی اور فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی مظہر اللہ نقشبندی، ثانی الذکر بریلوی مکتب ِ فکر کے عالم تھے۔ مفتی مظہر اللہ کے پاس کوئی جاتا کہ حضرت! چاند ہوگیا ہے۔ وہ پوچھتے کہ مفتی کفایت اللہ کا کیا فیصلہ ہے، پرچی لکھواکر لائو۔ مفتی صاحب لکھ کر دے دیتے۔ مفتی مظہر اللہ کہتے کہ مفتی صاحب نے جو فیصلہ کیا وہی میرا فیصلہ ہے۔ اِس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تھا اور کبھی اِس کے برعکس ہوتا کہ مفتی کفایت اللہ، مفتی مظہر اللہ کے فیصلے پر صادکرتے۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں جو کمیٹی پرائیویٹ طور پر بنی اُس کے روح ِرواں خطیب الامت حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی تھے۔ اگرچہ شروع میں حضرت علامہ سید سلیمان ندوی اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی اس کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ یہ حقیقت بھی اہل پاکستان کو ابھی یاد ہوگی کہ ایک مرتبہ عید الفطر کا چاند نظر نہیں آیا تھا اور مولانا احتشام الحق تھانوی نے تیس ویں روزے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے سرکاری طور پر اعلان کرایا کہ کل عید ہے۔ مولانا تھانوی پولو گرائونڈ کراچی میں سرکاری عیدگاہ کے امام تھے،