ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
پھر خدا نے کیا اُن کو شکست ہوگئی۔ شکست اِس معنٰی میں ہوئی کہ اُنہوں نے تو بڑی اچھی تدبیر کی تھی کہ بہت سے قبیلوں سے اُنہوں نے دستے لے لیے تھے (جیسے نیٹو یا اقوام ِمتحدہ کی فوجیں )جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر مسلمانوں کے ہاتھوں کسی بھی قبیلے کا کوئی آدمی مارا جائے تو وہ قبیلہ تو بس دُشمن بن گیا ہمیشہ کے لیے۔ تو اُنہوں نے اِس ترتیب سے ایک محاذ بنایا اور سب کے ساتھ اِتحاد کیا اور ہر ایک سے اُنہوں نے فوج لی اوروہ حملہ آور ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے کیا کہ لڑائی ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ اُدھر خندق درمیان میں آگئی تو دست بدست جنگ جسے کہا جائے وہ ہوئی ہی نہیں۔ تو وہ قبیلوں سے جو لڑائی کرانی چاہتے تھے ابوسفیان، نہایت عمدہ تدبیر تھی وہ ناکام ہوگئی۔ اِن کو جب سترہ اَٹھارہ دن ہوگئے اِسی طرح میدان میں پڑے ہوئے اور لڑائی کی نوبت نہ آئی تو ہر ایک کو گھر یاد آنے لگا، کہا گھر چلیں گھر۔ اور ایسے ہوا کہ آندھی چلی بہت تیز ایسے کہ خیمے اُکھڑگئے، اور اُن کے کھانے پینے کا سامان سب تَلپٹ ہوگیا، دیگیں بھی اُلٹ پلٹ ہوگئیں، تو پھر اُن لوگوں نے کہا کہ یہ تو بد دِلی پیدا ہوگئی اور جب فوج میں لڑنے سے بد دِلی ہوجائے پھر کیسے لڑیں گے۔ سیاسی اور فوجی شکست : تو اَب اُنہوں نے یہ مشورہ کیا کہ چلو اِس وقت چلتے ہیں واپس پھر دیکھیں گے۔ لیکن اِتنے لوگوں کو جمع کرلینا ہر دفعہ یہ بڑا مشکل کام ہے، اِس کے لیے تو پورا زُور لگایا تھا ابوسفیان نے۔ تو پھر کہیں جاکر جمع کرنے پائے تھے اِتنے قبیلوں سے آدمی۔ یہ ہمیشہ جمع ہونے بہت مشکل ہیں۔ اَب یہاں آئے بھی، وہ جمع بھی ہوئے اور بد دِل بھی ہوئے، تو بد دِل ہونے کے بعد پھر جمع کرنا یہ بہت مشکل کام ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی فتح : رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا تھا کہ اَلاٰنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَایَغْزُوْنَنَا آئندہ تو ہم اِن سے لڑنے جائیں گے یہ ہمارے اُوپر چڑھائی کرکے نہیں آئیں گے۔ یہ خبر دی ہے جناب ِ رسول اللہ ۖ نے اور اِسی طرح ہوا بھی، ویسے سیاسی طور پر سمجھ میں آتی بھی ہے بات یہ، کہ دوبارہ اُن کو جمع کرکے پھر لانا یہ بہت مشکل کام بن گیا تھا اِس لڑائی کے نہ ہونے کی وجہ سے اور اُن کے بد دِل ہونے کی وجہ سے۔ ظاہری چیز یہ ہے، باطنی چیز وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جناب ِ رسول اللہ ۖ کو بتلادی کہ یہ اِس قسم کے اِمتحان کی گویا انتہا ہوگئی۔