ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
ن کے اپنے اپنے پریشان کُن خیالات دوڑنے شروع ہوجاتے تھے، اور پریشان کُن خیالات اپنی ذات کے بارے میں ہوں، گھر والوں کے بارے میں ہوں، تجارت کے بارے میں ہوں، دُنیا کے بارے میں ہوں یا دین کے بارے میں ہوں، اُن سے پریشان ہوتا ہے انسان۔ منافقین کی یہ بات کہنے کی وجہ کیا تھی اُن کے جنازے کے بارے میں؟ وہ برائی کیوں ثابت کرنی چاہتے تھے؟ دُنیا کا سب سے پہلا تفصیلی معاہدہ اور یہودیوں کی بدعہدی : بات یہ ہے کہ رسول اللہ ۖ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے وہاں کے باشندوں سے معاہدے کیے۔ اُن میں وہاں کے مشرکین بھی تھے، یہودی بھی تھے اور اُس میں یہ تھا کہ ہم سب ایک رہیں گے اور اگر ہمیں کوئی نقصان پہنچائے گا تو ہم سب ایک طرف ہوں گے اور ساتھ رہیں گے۔ کوئی حملہ آور ہوگا تو سب مل کر اُس کا توڑ کریں گے، دفاع کریں گے۔ یہ ایک معاہدہ کیا، بڑا طویل معاہدہ ہے اور شاید دُنیا میں اِس سے پہلے اِتنا مفصل معاہدہ کہیں ملتا نہیں جتنا وہ مفصل معاہدہ تھا۔ نہایت عمدہ طریقے سے۔ لیکن دونوں طبقے مشرکین اور یہود، یہ مسلمانوں کے خلاف درپردہ خفیہ طور پر کام کرتے رہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش میں برابر لگے رہے۔ اُن سے کہا بھی جاتا رہا، شکایتیں بھی کی جاتی رہیں، جتایا بھی گیا، سب کچھ ہوا، لیکن پھر بھی بُرائی کی طرف برابر لگے رہے۔ کرتے کیا تھے وہ؟ جوش دِلاتے تھے کفارِ مکہ کو اور اُن سے وعدے کرتے تھے کہ تم آئوگے تو ہم اِن کا ساتھ نہیں دیں گے ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ یہ نوبت تو کبھی نہیں آئی کہ اُن کا ساتھ دیا ہو مدینے کے یہودیوں نے۔ البتہ صحابہ کرام کا اور رسو ل اللہ ۖ کا ساتھ نہ دیا ہو ایسا ضرور ہوا ہے۔ اِتنی ہمت تو نہیں ہوئی کہ کُھل کر اُدھر ساتھ دیں۔ مگر اُن کو اُبھارنا، اُن کو حملے پر آمادہ کرنا، اُن کو خبریں مہیا کرنی، یہ کارروائیاں یہ لوگ کرتے رہتے تھے اور اِن یہودیوں کے دماغ میں یہ تھا کہ ہم بڑی اعلیٰ اور منظم قوم ہیں ١ اور باقی جو مدینہ منورہ کی اور آبادی تھی مشرک، وہ بھی اِن کے ساتھ ساتھ تھی۔ اقوامِ متحدہ کا مدینہ منورہ پر حملہ اور ناکامی : تورسولِ کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم پر ایک دفعہ مدینہ منورہ چڑھائی کرکے یہ کفارِ مکہ ابو سفیان کی قیادت میں آئے، وہ اُس وقت مسلمان نہیں تھے۔ تو جب وہ آئے تو بچائو کی تدبیر سوچی گئی، خندق کھودی گئی، ١ جیسا کہ آج کل بھی یہودی عیسائی قادیانی آغاخانی اور پرویزیوں کا اپنے بارے میں ایسا ہی خیال ہے ۔ (محمودمیاں غفرلہ)