ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
سے پڑھیں، یہ تو کرنا ہے لازمی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی کرنا ہے۔ کیونکہ آپ نبیوں کے نمائندے ہیں او ر نبیوں کا کام کرنے کے لیے آپ کو عوام کی فلاح و بہبود کا سوچنا ہوگا ، اُس کی فکر کرنی ہوگی تب آپ معاشرے میں مضبوط ہوجائیں گے، آپ کی حیثیت مضبوط ہوگی، آپ کی بات مضبوط ہوگی اور کفر اور باطل آپ کے سامنے سر نہیں اُٹھاسکے گا۔ ا گر آپ نے یہ نہ کیا اور عوام سے اپنا تعلق کم کرلیا، مضبوط نہ کیا تو پھر ہم کفر کی نظر میں ذلیل اور کمزور ہوجائیں گے۔ پھر وہ ہمیں نمازی روزہ دار اور حاجی ہونے کے باوجود اپنی لاٹھی سے جیسے چاہیں ہانکیں گے کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ مذہب ذاتی معاملہ نہیںبلکہ اجتماعی ہے : یہی وجہ ہے کہ کبھی نماز سے نہیں روکیں گے، کبھی روزہ سے نہیں روکیں گے، کبھی سیدھے ہاتھ سے کھانے سے نہیں روکیں گے، کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ اُلٹے ہاتھ سے کھائیں آپ، کفار یہ نہیں کہتے وہ کہتے ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ذہن میں لوگوں کے یہ بٹھادیں کہ مذہب ذاتی مسئلہ ہے، اِسلام کہتا ہے مذہب ذاتی مسئلہ نہیں ہے مگر وہ یہ بات کرکر اصل میں ہمیں اس طرح دھوکہ دیتے ہیں کہ دیکھو بھئی ہم مذہب کو ذات تک رکھتے ہیں آپ بھی مذہب کو ذات تک رکھیں۔ حالانکہ وہ مذہب کو ذات تک نہیں رکھتے۔ بش نے کیا اعلان کیا؟ اُس نے کہا ہے کہ یہ ''صلیبی جنگ'' ہے تو مذہب ذات تک رہا آپ بتائیں مذہب ذات تک ہے؟ بلکہ اُس کی فکر کیا ہے؟ اس کا مذہب ذات تک نہیں ہے بلکہ پھیل رہا ہے مذہب کی بنیاد پر وہ سارے کام کررہا ہے۔ وہ ووٹ لے رہا ہے تو مذہب کی بنیاد پر لے رہا ہے، الیکشن لڑ رہے ہیں تو عیسائیت کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں، تجارت کررہے ہیں وہ تو عیسائیت کی بنیاد پر کررہے ہیں۔ ہر کام عیسائیت او ر یہودیت کی بنیاد پر ہورہا ہے تو ہم اسلام کی بنیاد پر کیوں نہ کریں۔ اِس لیے ہر شعبے میں آپ کو کام کرنا ہے، ہر آدمی کو اپنے ساتھ جوڑنا ہے، صرف اپنی ذات تک نہیں رہنا، صرف عبادات تک دین کو محدود نہیں کرنا بلکہ اِس کے ہر شعبے کو زندہ کرنا ہے اور اپنے اِس مشن کو پھیلانا ہے آپ نے۔ پھر سوچیں : آپ سوچیں کہ ہمایوں خان جو پریشان تھا وہ کیوں پریشان تھا؟ کام تو بجلی لگانے کا تھاوہ تو ہوسکتا تھا، لیکن اس کو فکر یہ تھی کہ یہ مولوی نہ کرائے کیونکہ اگر مولوی نے کرایا تو اُس کو قوت حاصل ہوجائے گی لوگوں