ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( نکاح کا بیان ) ولی کا بیان : لڑکی اور لڑکے کا نکاح کرنے کا جس کو اختیار ہوتا ہے اُس کو ''ولی'' کہتے ہیں۔ مسئلہ : لڑکی اور لڑکے کا ولی سب سے پہلے اُس کا باپ ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو دادا، وہ نہ ہو تو پردادا، اگر اِن میں سے کوئی نہ ہو تو سگا بھائی، سگابھائی نہ ہو تو سوتیلا یعنی باپ شریک بھائی، پھر بھتیجا، پھر بھتیجے کا لڑکا، پھر بھتیجے کا پوتا یہ بھی نہ ہوں تو سگا چچا پھرسوتیلا چچا یعنی باپ کا سوتیلا بھائی پھر سگے چچا کا لڑکا پھر اُس کا پوتا، پھر سوتیلے چچا کا لڑکا اور پوتا ،یہ کوئی نہ ہوں تو باپ کا چچا ولی ہے پھر اُس کی اولاد۔ اگر باپ کا چچا اور اُس کے لڑکے، پوتے، پرپوتے کوئی نہ ہوں تو دادا کا چچا پھر اُس کے لڑکے پوتے پھر پرپوتے وغیرہ۔ یہ کوئی نہ ہوں تب ماں ولی ہے۔ پھر دادی پھر نانی پھر پرنانی پھر حقیقی بہن پھر سوتیلی بہن جو باپ شریک ہو، پھر جو بھائی بہن ماں شریک ہوں پھر پھوپھی پھر ماموں پھر خالہ وغیرہ۔ مسئلہ : بالغ عورت کا اگر کوئی جوان بیٹا ہو تو ولی ہونے میں اُس کا بیٹا اُس کے باپ پر مقدم ہے۔ مسئلہ : نابالغ شخص کسی کا ولی نہیں ہوسکتا اور کافر کسی مسلمان کا ولی نہیں ہوسکتا اور مجنون پاگل بھی کسی کا ولی نہیں ہوسکتا۔ بالغ عورت میں ولی کے مسائل : مسئلہ : بالغ یعنی جوان عورت خود مختار ہے چاہے نکاح کرے یا نہ کرے اور جس کے ساتھ جی چاہے کرے جس کیساتھ جی چاہے نہ کرے۔ ولی نہ تو نکاح کرنے سے روک سکتا ہے اور نہ عورت کے بلاچاہے زبردستی اُس کا نکاح کرسکتا ہے اور نہ ہی عورت کی مرضی کے خلاف پر زبردستی اپنی من مانی جگہ پر نکاح کرسکتا ہے۔ مسئلہ : لڑکی جوان اور بالغ ہوتو نکاح سے پہلے ولی کا اُس کو یہ کہنا کہ فلاں جگہ سے تمہارا پیغام آیا ہے اور ہمارا اِرادہ ہے کہ وہاں تمہارا نکاح کردیں، سنت ہے۔ ولی خود نہ پوچھے بلکہ عورتوں سے مثلاً لڑکی کی ماں کے ذریعہ پوچھوالے تو اِس سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے۔