ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
ہے کہ کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں اور پھر اِس کو مسلمان کیسا مزے دار سمجھتے ہیں حالانکہ جھوٹ کے ذرا سے لگائو ہوجانے سے بھی گناہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک بچے سے بہلانے کے طور پر یوں کہا کہ آئو چیزیں دیں گے تو جناب ِرسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اگر وہ آجائے تو کیا چیز دوگی؟ اُنہوں نے دکھایا کہ یہ میرے ہاتھ میں کھجور ہے۔ فرمایا! اگر تمہاری نیت کچھ دینے کی نہ ہوتی تو گناہ لکھا جاتا۔ دیکھا آپ نے کہ جھوٹ ایسی بُری چیز ہے۔ (تسہیل المواعظ) غیبت : زبان کا یہ گناہ ہے کہ لوگوں کی پیٹھ پیچھے اُن کی ایسی باتیں کرے جن سے وہ بُرا مانیں اِسے ''غیبت'' کہتے ہیں۔ (عموماً عورتیں) یہ کہا کرتی ہیں کہ ہم اُس کے منہ پر کہہ دیں گے۔ اَجی اگر منہ پر عیب لگائوگی تو کون سا اچھا کروگی۔ ہاں اتنی بات ہے کہ اگر منہ پر (یعنی سامنے) بُرا کہوگی تو بدلہ بھی پائوگی، وہ تم کو بُرا کہے گی۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنا تو دھوکہ سے مارنا ہے۔ یاد رکھو جیسے دوسروں کے مال کی قدر و عزت ہوتی ہے ایسے ہی بلکہ اِس سے زیادہ آبرو کی عزت ہے۔ دیکھو نا! جب عزت آبرو پر آنچ آتی ہے تو مال تو کیا چیز ہے جان تک کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ تو جب دوسرے کے مال پر ہاتھ ڈالنا جائز نہیں تو عزت آبرو پر ہاتھ ڈالنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ مگر غیبت ایسی پھیل گئی ہے کہ باتوں میں معلوم نہیں ہوتا کہ غیبت ہوگئی ہے یا نہیں؟ اِس سے بچنے کی ترکیب تو بس یہی ہے کہ کسی کو بھلا یا بُرا کچھ ذکر نہ کیا جائے کیونکہ بھلائی کا بھی ذکر کروگی تو شیطان دوسرے کی بُرائی تک پہنچادیتا ہے اور کہنے والا سمجھتا ہے کہ بھلائی کا ذکر کررہا ہوں حالانکہ بُرائی کے مل جانے سے وہ بھلائی بھی کی نہ کی برابر ہوگی۔ محترم مائوں بہنو ! آپ کو تو اپنے ہی کام بہت ہیں پہلے اُن کو پورا کیجیے آپ کو دوسرے کی کیا پڑی۔ غیبت میں گناہ ہونے کے علاوہ کچھ مزہ بھی تو نہیں اور دُنیا میں اِس کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ جب دوسرے کو معلوم ہوگا تو عداوت پیدا ہوجائے گی پھر آپ خود ہی سمجھ لیجیے کہ اِس کا کیا اثر ہوگا۔ عورتوں میں غیبت کا مرض بہت ہے۔ وہ عورت ہی نہیں جو غیبت نہ کرے اور غیبت غیر رمضان میں بھی حرام ہے اور رمضان میں تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ نہ معلوم لوگوں کو غیبت میں کیا مزہ آتا ہے۔ تھوڑی دیر