ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
قسط : ١١ اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (٤٠) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَةُ قُلْ لَّااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہ ۖۖ مَنْ قَرَابَتُکَ ھٰؤُلائِ الَّذِیْنَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُھُمْ قَالَ عَلِیّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدُھَا۔ (رواہ ابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردَویہ فی تفاسیرھم والطبرانی فی المعجم الکبیر)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی قُلْ لَّااَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی ''یعنی کہہ دیجیے اے رسول اللہ ۖ میں تم سے اُجرت نہیں مانگتا احکامِ خداوندی پہنچانے کی مگر دوستی اہل قرابت کی چاہتا ہوں یعنی میرے اہلِ قرابت سے محبت رکھو جس سے مجھے تکلیف اور رنج نہ ہو اور دینی خدمت تو میں اللہ کے واسطے کرتا ہوں کچھ مزدوری اُس پر نہیں چاہتا اور دوستی اہل قرابت کی مزدوری میں داخل نہیں بلکہ یہ خود ایک حکم مستقل ہے احکام خداوندی میں سے۔اور وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عقلاء کے نزدیک مُسَلَّم ہے کہ اپنے محسن کے احسان کا لحاظ چاہیے اور احسان کا بدلہ پورا کرنا چاہیے موافق طاقت کے، پس ضرر اور رنج سے محسن کو خواہ وہ معلم ہو یا مرشد یا اور کسی طرح کا سلوک کرنے والا ہو بچانا ضروری ہے حد شرعی کے اندر ،پھر چونکہ جناب رسول مقبول ۖ اعلیٰ درجہ کے خیر خواہ اور محسن ہیں لہٰذا آپ کو ہر طرح سے منظور نظر اور خوش رکھنا اور رنج سے بچانا واجب ہے۔ پس اس آیت کے نازل ہوئے پیچھے لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ۖ آپ کے وہ رشتہ دار