ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2006 |
اكستان |
|
سامنے آگئے۔ کہنے لگے ہم سب قاتلین ِعثمان ہیں۔ پس جو چاہے ہمارا اِرادہ کرلے (کہ ہم سے جو بدلہ لینا چاہتا ہے وہ ہمارے سامنے آئے) ۔'' فَرَجَعَ اَبُوالدَّرْدَآئِ وَاَبُوْاُمَامَةَ فَلَمْ یَشْھِدَا لَھُمْ حَرَبًا۔( البدایہ ج ٧ ص ٢٥٩) ''حضرت ابوالدردائ اور ابواُمامہ واپس چلے گئے اور ان لوگوں کی جنگ میں شرکت نہیں کی''۔ ١ اِس تمام گفتگو کو سامنے رکھیں تو آپ کے سامنے صحیح صورت ِحال آئے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دلیلیں اور اُن کے فیصلے سب قومی ہیں اس لیے ائمہ اربعہ نے اِن ہی سے استدلال کیا ہے اور اِنہیں ہی صحیح تسلیم کیا ہے۔ انتخاب ِخلیفہ کا حق اصحابِ شوریٰ سے بڑھاکر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ' نے دائرہ وسیع فرمادیا کیونکہ اصحاب ِشوریٰ جن میں سے ایک (حضرت عثمان) تو شہید ہوگئے تھے اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ٣٢ھ میں وفات پاگئے تھے۔ تو حضرت علی سمیت کل چار حضرات رہ گئے تھے۔ حضرت طلحہ حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔ یہ عشرہ مبشرہ میں سے اصحاب ِشوریٰ کہلاتے ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے ایک حضرت سعید رضی اللہ عنہ بھی حیات تھے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی تھے۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ وعنہم نے انتخاب خلیفہ کا مسئلہ اہل ِبدر پر موقوف فرمادیا۔ اہل بدر رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ٣٢ھ میں صرف سو حضرات حیات تھے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے اپنی وفات کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ میرے ترکہ میں سے تمام بدری صحابی کو چار چار سو دینار دیے جائیں۔ اُس وقت فہرست تیار ہوئی تو یہ سو حضرات حیات تھے۔ ان میں ان کی وصیت کے مطابق چار سو دینار سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی قبول فرمائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ۔(البدایہ ج٧ ص ١٦٤) ١ حضرت ابوالدردائ قاضی شام تھے۔ اِن کے سال وفات میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر اور دیگر حضرات نے ان کی وفات جنگ صفین کے بعد بتلائی ہے۔