ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
چولھے میں آگ نہ جلی اور جنہوں نے فقر و فاقہ کو اپنا فخر اور اپنی عزت سمجھا اور اُمت کو بھی اِسی کی رغبت دلائی۔ محبت اور تابعداری کا یہی مقتضا ہے کہ ہم لوگ بھی بالکل یہی طریق اختیار کریں بقدر ضرورت دُنیا پر کفایت کریں جس سے نیک اعمال بجالاسکیں اور دُنیا کو مسافر خانہ سمجھیں اور بس ہر امر میں حضور ۖ کا طریق اختیار کریں۔ جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے عذاب دوزخ نہایت دردناک ہے چند روزہ دُنیا کو جیسے ہوسکے گزارکر فلاح دینی اور رضائے الٰہی اور دوزخ سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔ تیسری فصل ....... حضرت فا طمہ کی وفات شریف کے بیان میں : حضرت فاطمہ کی عمر شریف اٹھائیس سال کی اور بقول بعض کچھ کم تھی کہ جناب رسول کریم ۖ نے وفات فرمائی۔ جناب سیّدةُ النساء کو بے حد صدمہ ہوا حتّٰی کہ حضور ۖ کی وفات شریف کے بعد کسی نے آپ کو ہنستے نہ دیکھا ،آخر اِسی صدمہ میں عالم بقا ء کو تشریف لے گئیں اور یہ نازک واقعہ حضور ۖ کی وفات شریف کے چھ ماہ بعد پیش آیا۔ روضة الاحباب میں منقول ہے کہ حضرت علی حضرت سیدةُ النسائ کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے اے رسول اللہ ۖ کی بیٹی میں اپنے دِل ِدرد مند کو بعد جناب رسول مقبول ۖ کے تم سے تسکین دیتا تھا (کہ آپ نمونہ تھیں آنحضرت ۖ کا) اب تمہارے بعد کس سے اپنے دل کو تسکین دوں گا اور بہت روئے اور یہ دو بیتیں فرمائیں۔ لِکُلِّ اِجْتَمَاعٍ مِنْ خَلِیْلَیْنِ فُرْقَة وَکُلُّ الَّذِیْ غَیْرُ الْفِرَاقِ قَلِیْل وَاِنَّ افْتِقَارِیْ فَاطِمًا بَعْدَ اَحْمَدۖ دَلِیْل اَنْ لَّا یَدُوْمَ خَلِیْل ''جہاں دو دو ستون کا اجتماع ہوگا فرقت اور جدائی ضرور پیش آوے گی اور جُدائی کثرت سے ہے اور چیزیں جُدائی کے سوا کم ہیں۔ اور میری تسکین ِقلب کے لیے فاطمہ کی حاجت بعد جناب رسول مقبول ۖکے دلیل ہے کہ کوئی دوست ہمیشہ نہ رہے گا''۔ وفات شریف ٣ رمضان المبارک سن ١١ ھ منگل کی رات میں واقع ہوئی۔ اُس زمانہ میں عورتوں کے جنازے کو بھی اِسی طرح لیجاتے تھے جیسے کہ آج کل مردوں کے جنازے کو لیجاتے ہیں کوئی خاص پردہ نہ ہوتا تھا۔ حضرت سیّدةُ النساء کو اس کی بڑی فکر تھی کہ میرا جنازہ باہر کو بغیر (اعلیٰ درجہ کے پردہ کے) جاوے گا اور لوگ دیکھیںm