ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
کو اختیار کرلیا۔ اور جب اپنے ہاتھوں نقصان کو اختیار کیا جائے تو اس میں خیر کا وعدہ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے استخارہ کرنے والے کو ہر حال میں اپنے کیے پر اطمینان رہتا ہے ندامت نہیں ہوتی۔ غرض استخارہ میں کامیابی کا وعدہ نہیں بلکہ حصول خیر کا وعدہ ہے خواہ خیر ظاہری ہو یا خیر باطنی ہو۔ (١٠) نمازِ توبہ : مسئلہ : اگر کوئی بات خلاف شرخ ہوجائے تو دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے خوب گڑگڑاکر اس سے توبہ کرے اور اپنے کیے پر پچھتائے اور اللہ تعالیٰ سے معاف کرائے اور آئندہ کے لیے پکا ارادہ کرے کہ اب کبھی نہ کروں گا اس سے بفضل خدا وہ گناہ معاف ہوجاتا ہے۔ (١١) نمازِ قتل : مسئلہ : جب کوئی مسلمان قتل کیا جانا ہو تو اُس کے لیے مستحب ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر اپنے گناہوں کی مغفرت کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تاکہ یہی نماز و استغفار دُنیا میں اس کا آخری عمل رہے۔ حدیث : ایک مرتبہ نبی کریم ۖ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے چند قاریوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے کہیں بھیجا تھا۔ اثناء راہ میں کفارِ مکہ نے انہیںگرفتار کرلیا۔حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کے سوا اور سب کو وہیں قتل کردیا۔ حضرت خبیب کو مکہ لے جاکر بڑی دھوم اور بڑے اہتمام سے شہید کیا، جب یہ شہید ہونے لگے تو اُن لوگوں سے اِجازت لے کر دو رکعت نماز پڑھی، اُس وقت سے یہ نماز مستحب ہوگئی۔ (١٢) نمازِ حاجت : جب کوئی حاجت اور ضرورت پیش آئے تو مستحب ہے کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نماز پڑھے۔ بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد پڑھے ورنہ مکروہ وقت کو چھوڑ کر کسی بھی وقت پڑھ لے ،پھر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور نبی ۖ پر درود پڑھے پھر یہ دعا پڑھے، اسکے بعد جو حاجت ہو اُس کا سوال اللہ تعالیٰ سے کرے۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِیْ ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہ وَلَاھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہ وَلَا حَاجَةً ھِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَھَا یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔