ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
تین باتیں ایمان کی اصل اور جڑ ہیں : عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ ۖ : ثَلٰث مِّنْ اَصْلِ الْاِیْمَانِ، اَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَلَا تُکَفِّرْہُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجْہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ، وَالْجِہَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ اٰخِرُ اُمَّتِی الدَّجَّالَ لَا یُبْطِلُہ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَاعَدْلُ عَادِلٍ وَالْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ '' (ابوداود ١٣٤٣ ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ۖ نے فرمایا : تین باتیں ایمان کی اصل اورجڑ ہیں : (١) جو شخص لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرلے اُس سے جنگ و مخاصمت ختم کردینا، اب کسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر مت کہو اور نہ کسی عمل کی وجہ سے اُس پر اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ لگائو۔ (٢)(اِس بات کا اعتقاد رکھنا کہ) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے، جہاد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا یہاں تک کہ میری اُمت کا آخری شخص دجال سے قتال نہ کرلے، کسی عادل (بادشاہ) کے عدل یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ بناکر جہاد ختم نہیں کیاجاسکتا ۔ (٣) قضا و قدر پر ایمان لانا۔ ف : اس حدیث پاک میں تین باتوں کو ایمان کی اصل اور جڑ قرار دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ جو شخص لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرلے اُس سے تعرض نہ کیا جائے۔ نہ تو اُسے کسی گناہ کی وجہ سے کافر کہا جائے جیسا کہ خوارج کا طریقہ ہے اور نہ کسی بد عملی کی وجہ سے اُسے اسلام سے خارج قرار دیا جائے جیسا کہ معتزلہ کا وطیرہ ہے۔ ایک زمانہ میں ایسا تھا کہ خوارج اور معتزلہ معمولی معمولی گناہ اور بدعملی پر لوگوں کو کافر اور اسلام سے خارج قرار دیدیتے تھے، افسوس کہ اب اِس روِش کو موجودہ دور کے کچھ مسلمان کہلانے والوں نے اپنالیا ہے اور وہ کفر سازی کے کارخانے چلانے لگے ہیں اور اپنے مکتبہ فکر کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو بے دریغ کافر قرار دے رہے ہیں، ایسے لوگوں کو اس حدیث کے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اِس کا اعتقادرکھاجائے کہ جہاد ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا یہاں تک کہ دجال مارا جائے، جہاد کو کسی بادشاہ کے عدل کا بہانہ بناکر یا کسی ظالم کے ظلم کا بہانہ بناکر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تیسری بات تقدیر پر ایمان رکھنا ہے یعنی اِس بات کا یقین رکھنا ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو بھی حادثات و واقعات پیش آتے ہیں وہ بس قضاء و قدر کے تحت پیش آتے ہیں۔ ٭٭٭