ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
اولاد کی تعلیم و تربیت ( حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی بلند شہری رحمة اللہ علیہ ) بہت سے لوگوں کو اولاد کی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ بچوں کے لیے پیٹ کی روٹی اور تن کے کپڑوں کا تو انتظام کردیتے ہیں لیکن اُن کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ اِن میں وہ لوگ بھی ہیں جن کے اپنے ماں باپ نے اُن کا ناس کھویا تھا اُنہیں پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہے اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں۔ اس عظیم غفلت میں اُن لوگوں کا بھی حصہ ہے جو خود تو نمازی ہیں اور کچھ اخلاق و آداب سے بھی واقف ہیں لیکن ملازمت یا تجارت میں اِس طرح اپنے آپ کو پھنسادیا ہے کہ بچوں کی طرف توجّہ کرنے کے لیے اُن کے پاس گویا وقت ہی نہیں ،حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لیے ہوتی ہے۔ جب زیادہ کمانے کی وجہ خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق کا خون ہوجائے تو ایسا کمانا کس کام کا؟ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اچھا خاصا علم بھی رکھتے ہیں مصلح بھی ہیں اور مرشد بھی ہیں، دُنیا بھر کے لوگوں کو راہ دکھاتے ہیں، سفر پر سفر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی یہاں وعظ کہا کبھی وہاں تقریر کی، کبھی کوئی رسالہ لکھا کبھی کوئی کتاب تالیف کی ،لیکن اولاد کی اصلاح سے بالکل غافل ہیں۔ حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمّہ داری ہے۔ اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور اُن کی عمر دس بارہ سال ہوجاتی ہے تو اب اُن کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں توجہ تو ہے لیکن وہ اولاد کو حقیقی علم سے بالکل محروم رکھتے ہیں یعنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے۔ بیس بیس سال کی اولاد ہوجاتی ہے جنہیں کلمہ تک یاد نہیں ہوتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں،نہ اُس کے فرائض نہ واجبات جانیں نہ اسلام کے عقائد پہچانیں، نہ دین کو جانیں، اس قسم کے لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین یورپ کے طور طریق سب کچھ سکھاتے ہیں، کوٹ پتلون پہننا بتاتے ہیں، اپنے ہاتھ سے اُن کے گلوں میں ٹائی باندھتے ہیں، ناچ رنگ کے طریقے سمجھاتے ہیں، عورتیں بیاہ شادی کی رسمیں بتاتی ہیں، شرکیہ باتوں کی تعلیم دیتی ہیں اور اس طرح سے ماں باپ دونوں مل کر بچوں کا خون کردیتے ہیں اور طرّہ یہ کہ اِن کو