ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
اور پھر اِس نفع رسانی اور محبت جگر گوشۂ رسول کے صلہ میں اِس ناکارہ کو رضائے حق اور دین کامل نصیب ہو ۔اور چونکہ اِس وقت تک بندہ کی نظر سے باوجود تلاش اس خاص مضمون کی کوئی مفصل اور مدلل و مرتب کتاب نہیں گذری اِس لیے ضروری سمجھا کہ یہ مضمون قلم بند کیا جاوے ۔واضح ہوکہ اِس کتاب میں مضامین معتبر درج کیے جاتے ہیں ہر قسم کے مضامین خشک و تر کا درج کرنا میرے و نیز تمام دینداروں اہل علم و تحقیق کی شان کے شایان نہیں اور گناہ کا باعث ہے چنانچہ بندہ کی تصانیف دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ کس قدر احتیاط نقل روایات اور اثبات مقاصد میں کی جاتی ہے فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ اس کتاب میں دو باب ہیں۔ پہلے باب میں آپ کی اسماء مبارک اور وِلادت شریف اور نکاح اور وفات شریف کا بیان ہے۔ اور دوسرے باب میں احادیث اور قرآن مجید سے جو فضائل آپ کے ثابت ہیں وہ قلم بند کیے گئے ہیں اور علی الاطلاق آپ کا سردارِ زنان عالم ہونا ثابت کیا گیا ہے اور فضائل مذکورہ میں بعض مناقب خود آپ کے اعمال سے ثابت ہیں اور باقی فضائل قرآن و حدیث میں مخبرانِ صادق کی اطلاع سے حاصل ہوئے ہیں رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ ٍ پہلا باب : اسماء مکرمہ اور وِلادت شریف و نکاح اور وفات شریف کے بیان میں ۔ اس باب میں کئی فصلیں ہیں : پہلی فصل ....... اسمائے شریفہ کے بیان میں : اسم ذات (عَلَم) آپ کا '' فَاطِمَہ ''ہے اور لقب شریف'' زَہْرَائْ'' اور'' بَتُولْ'' ہے۔ اگرچہ اسم ذات میں مناسبت معنویہ شرط نہیں مگر بہتر ہے کذا قال السید السند فی حاشیة الکشاف۔ منصب ِنبوت کے مناسب بھی یہی ہے کہ اِس مناسبت کا لحاظ رہے پس فقیر کے نزدیک یہ مناسبت معلوم ہوتی ہے کہ'' فَاطِمَہ '' کے لغوی معنی ہیں ''دو برس کے بعد بچہ کو دُودھ سے علیحدہ کرنے والی ''تو اِس نام میں نیک فالی ہے اِس امر کی کہ آپ کے اولاد (دیندار) پیدا ہوگی (چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نیک فالی کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے اور بدشگونی کو ناپسند) اور'' بَتُولْ'' اس وجہ سے لقب ہوا کہ بتل بفتح با بمعنی قطع ہے پس بتول بمعنی قَطُوع بفتح اول بصیغہ اسم فاعل ہوا جس کے معنی کاٹنے والی پس چونکہ آپ دُنیا کے علاقوں کو قطع کرچکی تھیں اِس لیے اِس مبارک نام سے مُشرف ہوئیں کذا فی غیاث ِاللُغات ۔اور'' زَہْرَائْ'' اِس وجہ سے لقب مبارک ہوا کہ آنحضرت مقدسہ گورے رنگ کی تھیں، یہ لقب ماخوذ ہے زُہرہ بالضم سے جس کے معنی سفیدی اور حسن کے ہیں ،کذا فی الغیاث۔