ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2006 |
اكستان |
|
گدھے کی سعادت : یہ ٹھیک ہے کہ گدھا بیوقوفی میں مشہور شمار ہوتا ہے وہ ضرب المثل ہے اور ہر زبان میں ہے تقریبا، ہر علاقے کے لوگ یہی کہتے ہیں اِسے۔ لیکن اِس بیوقوف کو ایک بڑی سعادت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سواری رہا ہے، اِس واسطے اس گدھے کی سواری کا اگر کوئی مذاق اُڑاتا ہے تو منع کیا گیا ہے اِس سے۔ اور اگر وہ زیادہ بدتمیزی کے ساتھ مذاق اُڑائے تو کفر کا اندیشہ ہے۔ تو اِس بیوقوف کو اِدھر بیوقوفی ملی تو اُدھر یہ سعادت بھی خدا نے اِس کو عطا فرمائی کہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سواری رہا ہے لہٰذا اِس کی سواری کا مذاق نہیں کیا جاسکتا ۔اور سندھ میں جو ہیں گدھے مثلاً کراچی وغیرہ میں اُن پر توبوجھ بھی لادتے ہیں اور چلتے بھی ہیں دوڑتے بھی ہیں، اِدھر کے گدھے ایسے نہیں ہیں، مختلف جگہوں کی صفات بھی کچھ مختلف ہیں۔ تو جو دوڑتا ہے وہ تو اچھا خاصا سفر کا کام دے سکتا ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی وہ گدھا ہی تھا جو مرا اور جسے اللہ نے زندہ فرماکر دکھلایا اور کئی نمونے اللہ نے ساتھ رکھ دیے، اُن کا جو کھانا تھا وہ خراب ہی نہیں ہوا جیسے ابھی پکاہوا رکھا ہے حالانکہ سو سال کا عرصہ گزرگیا تھا اور گدھے کی بس ہڈیاں رہ گئیں تھیں باقی کچھ نہیں رہا، ہڈیوں کو دیکھیں کیسے اِن کو بڑھاتے ہیں، یہ نشانیاں اُن کو دکھائیں اور اِن کے اُوپر موت کی کیفیت رہی، وہ سوئے رہے۔ سوئے رہے جیسے، جیسے سونے میں وقت کا پتہ نہیں چلتا کہ کتنا وقت گزرگیا ایسے ہی انہیں بھی وقت کا پتا نہیں چلا کہ کتنا وقت گزرگیا۔ وقت اِس عالَم میں ہے اُس عالَم میں نہیں ہے : اور وقت تو ایسی چیز ہے کہ وہ اِس دُنیا میں ہے اس عالم میں ہے وقت باقی اِس سے آگے جو دوسرے عالَم ہیں اُن میں تو وقت ہے ہی نہیں، پتا ہی نہیں چلتا وقت کا۔ یہ دن و رات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں وقت، اور یہ مضمون قرآن پاک میں بھی ہے کہ وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا اٰ یَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰ یَةَ النَّھَارِ مُبْصِرَةً اور ہم نے بنائے رات اور دن دو نمونے پھر مٹادیا رات کا نمونہ اور بنایا دن کا نمونہ دیکھنے کو لِتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّّبِّکُمْ تاکہ تم اللہ کا جو فضل تمہارے لیے رکھا گیا ہے اُسے تم حاصل کرسکو ،اپنے اپنے مقاصد اپنے