ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2005 |
اكستان |
|
کے روزے رکھو اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو ۔ ان اصحابی نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے لہٰذا میرے لیے اوراضافہ کردیجیے ۔آپ ۖ نے فرمایا کہ ہر مہینے میں دودن روزہ رکھ لیا کیجیے پھر ان صحابی نے عرض کیا کہ میرے لیے اوراضافہ فرمادیجیے (کیونکہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے )آپ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیاکیجیے۔ پھر اُن صحابی نے عرض کیا کہ میرے لیے اوراضافہ فرمادیجیے تو آپ ۖنے ارشاد فرمایا کہ اشھرحُرُمْ (ذیقعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اوررجب کے مہینوں )میں روزہ رکھو اور چھوڑواورآپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا ان کو ساتھ ملادیا پھر چھوڑ دیا (مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میںتین دن روزہ رکھو پھر تین دن ناغہ کرو اوراِسی طرح کرتے رہو۔(ابودائود مسند احمد ، ابن ماجہ ) فائدہ : حدیث میں ان چار مہینوں کے اندر روزہ رکھنے کا جو طریقہ بتلایا گیا ہے ضروری نہیں کہ ہر شخص اس طریقہ پر عمل کرے بلکہ جس طرح اورجتنے روزے کوئی رکھ سکتا ہو اجازت ہے۔ حضو ر ۖ نے ان صحابی کیلیے یہی طریقہ مناسب سمجھا تھا اسلیے اُن کی شان اورحالت کے مطابق یہ طریقہ تجویز فرمایا ۔ یہ تو ان چار مہینوں کے متعلق عمومی بیان تھا ، اوربعض روایات سے خاص رجب کے مہینے میں روزے کی فضیلت کا اشارہ بھی ملتا ہے جو ذیل میں درج ہیں۔ عَنْ عَطائٍ انَّ عُرْوَةَ قَالَ لِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا ھَلْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَصُوْمُ فِیْ رَجَبَ ؟ قَالَ نَعَمْ وَیُشْرِفُہ ( ابو الحسن علی ابن محمد بن شجاع الربعی فی فضل رجب ، ورجالہ کلھم ثقات) ( کنزالعمال ج٨ ص٦٥٧ رقم ٢٤٦٠١، لطائف لا بن رجب ) حضرت عطاء سے مروی ہے کہ حضرت عروہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ۖ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے تھے؟ حضرت ابن عمر نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ بے شک (رکھتے تھے )اوراِس مہینے کو عظمت والا شمار کرتے تھے۔ عُثْمانُ یَعْنِی ابْنَ حَکِیْمٍ قَالَ سَأَلْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ عَنْ صِیَامِ رَجَبَ فَقَالَ اَخْبَرَنِی ابْنُ عَبَّاسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ کَانَ یَصُوْمُ حتّٰی نَقُوْلَ لَا