ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2005 |
اكستان |
|
حقیقت یہ ہے کہ اِن مایوس کن حالات میں جو دوچار کالم نگاروں کسی اعلیٰ مقصد کے تحت قرطاس وقلم سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں ،اُن میں مولانا مجاہد الحسینی صاحب مدظلہ کا نام بھی شامل ہے جو پاکستان کے کثیرالاشاعت اخبار ''روزنامہ اسلام ''میں کالم لکھتے ہیں ۔مجھے صدفیصد یقین ہے کہ ہمارے نام نہاد ادبی حلقوں میں کسی نے مولانا کا اور جس اخبار میں وہ کالم لکھتے ہیں اُس کا نام نہیں سنا ہوگا ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ادب علم سے جدا ہو گیا ہے ،ہمارے ادیب اپنے آس پاس ہی کے لوگوں کو جانتے ہیںاور ایک دوسرے ہی کی تحریروں کو دیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ ادب کا معیار بھی اپنی اوراپنے جیسوں کی تحریروں سے متعین کرتے ہیں ۔حدتو یہ ہے کہ ہمارے آج کے ادیب سیّد سلیمان ندوی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبدالماجد دریا بادی جیسے اکابر کی ادبی خدمات سے بھی ناواقف ہیں ۔ مولانامجاہد الحسینی صاحب مدظلہ جس اخبار (اسلام ) میں کالم لکھتے ہیں ، وہ بیک وقت کراچی، راولپنڈی، ملتان ، لاہور اور مظفرآباد سے شائع ہوتا ہے اور تمام مقامات سے شائع ہونے کی مجموعی تعداد روزنامہ ''جنگ'' کو چھوڑ کر پاکستان کے کسی بھی روزنامے سے زیادہ ہے۔ اس اخبار میں کالم لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کالم نگار کی قارئین کے ایک بہت بڑے حلقے تک رسائی ہے ۔ مولانا کی کالم نگاری کی نمایاںخصوصیت یہ ہے کہ وہ تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ ایک نہایت سنجیدہ مقصد سے کالم لکھتے ہیں اوروہ مقصد یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو عہد ِ حاضر خصوصاً عالمِ اسلام کے حالات سے باخبر رکھا جائے نیز صہیونیت اوراُس کے ہوا خواہوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ جو شرمناک سلوک ہو رہا ہے اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی شعور کواس طرح بیدار کیا جائے کہ ہر مسلمان موجود ہ عالمی حالات میں اپنے دینی فرائض ادا کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مولانا اظہار کا جواندار اختیار کرتے ہیں ، وہ اُردو صحافت میں ایک مسلسل بالکل منفرد انداز ہے۔ ایسی سدا بہار ادبیت اخبارات کے صفحوں پر کبھی کبھار ہی نظر آتی ہے ۔ ''یارب ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میں تھی''۔ مولانا مجاہدالحسینی صاحب کے کالموں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع پر کالم لکھتے ہیں ، اُس کے بارے میں ضروری معلومات کو اِس طرح یکجا کر دیتے ہیں کہ قاری کو کسی دوسرے ذریعے سے معلومات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔مختصر یہ کہ مولانا کے کالم پڑھنے والا بہت کچھ حاصل کرتا ہے اور میں بھی اِن بہت کچھ حاصل کرنے والوں میں شامل ہوں۔ میری دُعا ہے کہ مولاناکا سدا بہار قلم تادیر مضامین نو کے انبار لگاتا رہے۔