ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
وابستہ ہوگی تو اتنا ہی اُس کے علم میں افادیت کاپہلو نمایاں ہوگا ۔ہم نے ایسے بہت لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے علمی استعداد تو بہت پیدا کی لیکن اساتذہ کا ادب اُن کے پاس نہیں تھا تواس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حصولِ علم سے نہ اُن کوکچھ فائدہ ہوا اور نہ اُن کے علم سے دوسروں کو کوئی فائدہ ہوا، ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ تو اس بناء پر اس بات کا بہت زیادہ اہتمام کیا جائے کہ اپنے اساتذہ کا ادب ہو آپ میں، یہاںچھوٹے چھوٹے بچے آتے ہیں ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش بھی اساتذہ کرتے ہیں یہ مدرسہ کرتاہے ،تو یوں پرورش کے ساتھ وہ بچپن کی حدود سے جوانی کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیںاورجب آئے تھے تو وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے ،یہاں رہتے ہوئے اُن کو علم بھی حاصل ہوجاتا ہے اُن کو سمجھ بھی حاصل ہو جاتی ہے تو اتنا خیال اوراحسان کرنے والے اساتذہ کیا اس قابل نہیں ہیں کہ ان کا احترام کیا جائے اوران کے ساتھ محبت رکھی جائے۔ ہمارے ایک استاد تھے حضرت مولانا معراج الحق صاحب ١ وہ ایک قصہ سناتے تھے اورایک مرتبہ انہوں نے یہ قصہ نہیں سنایا بلکہ کئی مرتبہ یہ قصہ انہوں نے سنایا، تو وہ فرماتے تھے کہ ایک طالب علم تھا جہلم کا، دارالعلوم دیوبند میں پڑھتا تھا اورابتداء سے لے کر آخر تک اُس نے وہیں پڑھا ،بہت صالح اورنیک طالب علم تھا جب اُس کے فارغ ہونے کے بعد اس کا وطن جانے کا وقت آیا تووہ اساتذہ کی خدمت میں آکر بہت روتا تھا اوریہ کہتا تھا کہ میں اپنے گائوں جارہاہوں لوگ یہ کہیں گے کہ یہ دیوبند سے پڑھ کر آیا ہے معلوم نہیں کتنا بڑا عالم ہے کتنا بڑا فاضل ہے اور آپ اساتذہ کو معلوم ہے کہ مجھے آتا کچھ بھی نہیں جانتا کچھ بھی نہیں، وہ بہت غبی تھا کند ذہن تھا، مجھے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا آپ کی صحبت حاصل ہوئی اور کچھ نہیں ۔اب میں بہت پریشان ہوں میں وہاں جائوں گا تو کیا ہوگا ؟لوگ توانتظار کر رہے ہیں برسوں سے کہ میں پڑھ کر دیوبند سے آئوں گا۔ تووہ (مولانا معراج الحق صاحب ) فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ ہمارا سفر ہوا پنجاب کا اسی علاقے میں، تو ہم نے خیال کیا کہ وہ دارالعلوم میں اُستادوں کی خدمت کیا کرتا تھا چلیں اُس سے جا کر ملیں تو اس کے گائوں وغیرہ کا پتہ کچھ ان کومعلوم تھا، راستے میں وہ فرمانے لگے کہ ہم کئی آدمی تھے دارالعلوم کے اساتذہ تھے جو اس کی ملاقات کے لیے جارہے تھے۔دیہات کا معاملہ آپ کو معلوم ہے ایسے ہی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے پوچھیں کہ فلاں گائوں کہاں ہے ؟تو وہ کہتے ہیں کہ جی یہ سامنے ہی ہے بہت ہی قریب ہے اور ہوتا بہت دُور ہے ،تو اس مقام پر جب اس کا پتہ پوچھنے لگے تو انہوں نے کہا ١ یہ حضرت اقدس مولانا سیّدحامد میاں صاحب کے ماموں تھے اور دارالعلوم دیوبند کے صدرمدرس بھی۔