ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
مسئلہ توسل پر ا عتراض ( حافظ مجیب الرحمن اکبری ، ڈیرہ اسماعیل خان ) منور صاحب لکھتے ہیں : ''مسلک پرستوں کے نزدیک دعائوں میں وسیلہ واسطہ دینا جائز ہے'' چنانچہ لکھتے ہیں : ''دعائوں میں انبیاء علیہم السلام اور صلحاء واولیاء ، شہداء و صدیقین کا توسل جائز ہے ان کی حیات میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی۔ حیات تک تو توسل کا معاملہ اس حد تک درست تھا کہ ان سے دعاکرائی جائے جیسا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی عمرہ پر روانگی کے وقت نبی ۖنے ان سے کہا کہ ای اخی اشرکنا فی دعائک ولا تنسنا '' اے میرے چھوٹے بھائی ہمیں اپنی دعا میں شریک کرنا اور نہ بھولنا'' اور یہ دُعا ہر زندہ مومن سے کرائی جاسکتی ہے لیکن مرنے کے بعد ان کا وسیلہ پکڑنا کھلا شرک ہے ''۔ (اسلام یا مسلک پرستی ص ١٩) توسل بالذات کی تقریباً تین صورتیں ہیں : (١) ایک نیک شخصیت کی زندگی میں ان سے دعاء کرائے بغیران کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا یہ سنت نبوی سے ثابت ہے۔ آپ ۖ فقراء مہاجرین کا وسیلہ پیش کرتے تھے۔(مشکٰوة ص ٤٤٧ ج ٢ بحوالہ شرح السنہ منتخب کنز العمال برمسنداحمد ص٦٥ ج٣ بحوالہ طبرانی ) اور اپنی ذات کا وسیلہ پیش کرتے ہوئے حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ (خلاصة الوفاء ص٢٠٢، ٢٠٣ بحوالہ معجم طبرانی اوسط وکبیر) (٢) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی نیک شخصیت دنیا سے رخصت ہو چکی ہو اُس کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا یہ بھی سنت نبوی سے ثابت ہے۔ آپ ۖ نے حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے لیے دُعاء مغفرت کرتے ہوئے اپنی ذات کے ساتھ دوسرے انبیاء علیہم السلام کا وسیلہ پیش فرمایا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ بِحَق