ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا سے دعا کرو کہ فلاں کام میرا پورا ہو جائے یہ مبنی اُوپر مسئلہ سماع کے ہے جو سماع موتیٰ کے قائل ہیں اُن کے نزدیک درست دوسروں کے نزدیک ناجائز۔ اسی کو شیخ (عبدالحق دہلوی ) نے لکھا وان الاستمداد باھل القبور فی غیر النبی والانبیاء علیہم السلام فقد انکرہ کثیر من الفقہاء (اہل قبور سے مدد چاہنا(نبی علیہ اسلام اور انبیاء علیہم السلام کے سوا میں )بہت سے فقہاء نے انکار کیا ہے)۔انبیاء علیہم السلام کو اِس وجہ سے مستثنیٰ کیا کہ ان کے سماع میںکسی کو اختلاف نہیں تیسرے یہ کہ دعاء مانگے الٰہی بحرمت ِفلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز ہے اور تمام شجروں میں موجود ہے ۔ (فتاوٰی رشیدیہ ) علامہ آلوسی رحمہ اللہ کی عبارت کا تعلق دوسری صورت سے ہے پہلی صورت کو تو سب فقہاء نے ناجائز کہا۔ علامہ آلوسی بھی ناجائز کہتے ہیں '' واعظم من ذالک انھم یطلبون من اصحاب القبور نحو اشفاء المریض واغناء الفقیر وردالضالة وتیسیرکل عسیر(روح المعانی ص ١٢٧ ج ٦) کہ لوگ قبر والوں سے مریض کو شفا دینا ،فقیر کو مالدار کرنا اور گم شدہ چیز واپس لانا اور ہر مشکل کی آسانی مانگتے ہیں۔ لیکن تیسری صورت جس میں بحث ہے اس کے متعلق فرماتے ہیں ۔ انالاارٰی بأسا فی التوسل الی اللّٰہ تعالیٰ بجاہ النبی ۖ عنداللّٰہ تعالیٰ حیاًومیتاً میں اس میں حرج نہیں سمجھتا کہ آپ ۖ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں جو جاہ ومرتبہ حاصل ہے اُس جاہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ پیش کیا جائے۔ اور''التوسل بجاہ غیرالنبی ۖ لابأس بہ ایضاً ''نبی کریم ۖ کے علاوہ کسی اور کے جاہ ومرتبہ سے توسل میں بھی حرج نہیں ہے اگر معلوم ہو کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا مرتبہ ہے ''۔ (رُوح المعانی ص١٢٧، ١٢٨ ج ٦) امام ابوحنیفہ و امام ابو یوسف رحمہما اللہ کا حوالہ : منور صاحب شرح کرخی للقدوری باب الکراھة اور ہدایہ کے حوالے سے استدلال کرتے ہیں کہ '' امام ابوحنیفہ نے کہا میں ناجائز سمجھتا ہوں کہ کوئی یوں کہے کہ بحق تیری مخلوق کے اور یہی قول امام ابویوسف کا ہے الخ'' (اسلام یامسلک پرستی ص ٢٣) (باقی صفحہ ٥٤ )