ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
حضرت معاویہ کے لیے نبی علیہ السلام کی دعا : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آقائے نامدار ۖ نے ایک دُعا دی اوروہ جو دُعا اُن کے لیے فرمائی اُس کے کلمات یہ ہیں اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ ھَادِیًا مَہْدِیّاً وَّاہْدِ بِہ اللہ تعالیٰ تواِن کو ھَادِیْ بنا ہدایت دینے والا ، مَہْدِیْ ہدایت پر قائم رہنے والا ، وَاہْدِبِہ اوران کے ذریعے سے ہدایت دے بھی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی ہدایت دے رہا ہو لیکن پھیل نہ رہی ہو ہدایت ، آگے ثمرات مرتب نہ ہو رہے ہوں اس کے۔وہ تو کام کررہا ہے، ہدایت کی تلقین کر رہا ہے ،وعظ کہہ رہا ہے لیکن آگے ماننے والے نہیں مانتے یہ بات بھی نہ ہو، بلکہ وَاہْدِبِہ ان کے ذریعے سے اُن لوگوں کو ہدایت بھی دے۔ حضرت عمروبن عاص کی شخصیت اورعرب کے چار داناء : اسی طرح سے دوسری شخصیت ہے حضرت عمروبن العاص کی جو نہایت ہوشیار لوگوں میں ہیں، اپنے دور میں یہ بڑے بڑے حضرات شمار ہوئے ہیں اِن کو کہا جاتا تھا دُعَاةِ عَرَبْ یعنی عرب کے نہایت اہم لوگ ۔ نہایت اہم لوگوں میں ایک حضرت عمروبن العاص، ایک حضرت قیس بن عبادہ ،ایک مغیرہ بن شعبہ ، ایک حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہم ) یہ چار آدمی جو ہیں یہ اپنے دور میں پورے عرب سارے عربوں میںسب سے زیادہ ذہین کامیاب تدبیر کرنے والے حضرات شمار ہوئے ہیں۔ تو آقائے نامدار ۖ نے حضرت عمروبن العاص کے بارے میں فرمایا ہے اَسْلَمَ النَّاسُ وَاٰمَنَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ لوگوں نے تو اسلام قبول کیا ہے اورعمروبن العاص نے ایمان قبول کیا ہے ۔ اَسْلَمَ کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس وجہ سے اسلام میں داخل ہو گئے کہ جان اور مال کا تحفظ ہے اورجانی اورمالی نفع ہے۔یہ بھی اسلام کے معنی میں داخل ہے لیکن حضرت عمروبن العاص کا جوایمان ہے وہ اس طرح کا نہیں بلکہ وہ تو پختگی کے ساتھ ہے، خوف سے اور کسی بھی قسم کے لالچ سے وہ ہٹا ہوا ہے ۔ حضرت عمروبن العا ص کے حبشہ جانے کی وجہ : تواس میں واقعہ اُن کا آتا ہے کہ وہ گئے تھے اصل میں حبشہ کے بادشاہ کے پاس اور اس لیے تحائف بھی لے گئے تھے بہت سارے کہ مکہ والوں نے انھیں نمائندہ بناکر بھیجا تھا کہ یہ لوگ جو مسلمان ہو کر چلے گئے ہیں حبشہ میں اُن کو واپس لائو ۔وہاں جا کر یہ چین سے ہوگئے اورتبلیغ بھی کررہے ہیں تو ان کو واپس لائو یہ اُن کی شرارت