ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
کلام ِالٰہی میں دُعا کی اہمیت وتاکید ( حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد صاحب القاسمی ) دُعا کے سلسلہ میں حکمِ خداوندی : اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً ط اِنَّہ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (پ ٨ سورة الاعراف آیة ٥٥ ) ''تم اپنے رب سے تضرع ظاہر کرتے ہوئے اور چپکے سے دعا کیا کرو، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیںفرماتے جو حد سے نکل جانے والے ہیں ''۔ اس آیت میں خداوندقدوس نے نہایت ہی تضرع وتخشع عاجزی اورذلت کے ساتھ دعا کا حکم دیا۔ یہی بندہ کا اللہ پاک کے نزدیک قیمتی سرمایہ ہے۔ دُعا کے یہ دواہم آداب ہیں جو اس میں مذکورہ ہیں ۔ تضرع اوراخفائ۔ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آہستہ اورپست آواز میں دعا کرنے میں ستردرجہ فضیلت ہے بمقابلہ جہرکے۔ ( مظہری جلد ٣ صفحہ ٣٦١) احکام القرآن میں جصاص رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ آہستہ دُعا مانگنا بہ نسبت اظہار کے افضل ہے۔ حسن بصری اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی منقول ہے۔ ( مظہری ج ٣ ص٣٤ ) البتہ تعلیماً کہ دعا کرنے کا طریقہ آجائے دُعائیہ کلمات معلوم ہو جائیں ، جہر میں کوئی قباحت نہیں ۔ اسی طرح بعض مواقع پر جہر کی بھی اجازت ہے۔ معارف القرآن میں ہے کسی خاص موقع پر خاص دُعا پوری جماعت سے کرانا مقصود ہو تو ایسے موقع پر ایک آدمی کسی قدر بلند آواز سے دعا کے الفاظ کہے اوردوسرے آمین کہیں ، اس میں مضائقہ نہیں۔ ( مظہری جلد ٣ صفحہ ٥٧٨ ) خدا کی جانب سے قبولیت ِدعا کا وعدہ : قبولیت ِدعا کے سلسلے میں ارشاد ِخداوندی ہے : وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْب ط اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ۔( پ١سورہ بقرہ آیت ١٨٦)