ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
باادب با نصیب حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے جامعہ مدنیہ دارالارشاد اٹک شہر میں تشریف آوری کے موقع پر یہ بیان فرمایا الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیٔات اعمالنا من یہدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ ونشہد ان سیّدنا وحبیبنا وشفیعنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تسلیماً کثیراً کثیراً۔ امابعد فقد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم أنما بعثت معلما۔ یہاں اس مرکز میں حاضری اس لیے ضروری ہے کہ یہ بزرگوں کی جگہ ہے اوران بزرگوں کے ساتھ رابطہ اورتعلق جس طرح ان کی حیات میں مفید ہوتا ہے اورضروری بھی ہوتا ہے اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ تعلق ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ مولانا ( یعنی حضرت مولانا قاضی ارشد الحسینی صاحب) کے حکم کی بنیاد پر میں آپ کی خدمت میں دوچار باتیں عرض کرنے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں، بات کوئی لمبی چوڑی مجھے نہیںکرنی طالب علموں سے یہ کہنا ہے کہ وہ طلب ِعلم کے زمانے میں اپنی پوری توجہ حصولِ علم پر خرچ کریں ،اپنے اندر قابلیت پیدا کریں استعداد پیدا کریں ۔قابلیت اور استعداد انسان کے لیے زندگی کے ہر مرحلے میں مفید ہوتی ہے اوراس کی ضرروت پیش آتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ طالبِ علمی کا زمانہ لاپرواہی اورغفلت میں گزارتے ہیں بعد میں ان کو حسرت رہتی ہے اور افسوس ہوتا ہے اور وقت گزر چکا ہوتا ہے اس لیے تلافی کی کوئی صورت نظرنہیں آتی ہے تو وہ بیچارے مایوسی کی زندگی گزارتے ہیں ۔آدمی اگر اس زمانہ میں کوشش کرے اور کوشش کے ساتھ ساتھ تقوٰی بھی اختیار کرے ،اساتذہ اور دیگر آلاتِ علم کا ادب واحترام بھی کرے تو پھر وہ خوش نصیب ثابت ہوتا ہے اس بناء پر آپ کو ان باتوں کاخیال کرنا چاہیے۔