ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
ہیں ؟اگرفرق ہے توصرف اتنا کہ براہِ راست کی صورت میں گویا بادشاہ کو کہا تجھے اپنی فوت شدہ والدہ کا واسطہ دیتا ہوں میرا کام کردے اور بالواسطہ کی صورت میں وزیر کو کہا میرے لیے بادشاہ سے کہے کہ فلاں کام کردے۔چاہیے تو یہ تھا کہ بالواسطہ کی صورت کو آنجناب ناجائز کہتے کہ وہ ظاہر میں ھٰؤلاء شفعاء نا عنداللّٰہ کا مصداق بن سکتی ہے اور براہِ راست کی صورت جائز کہتے۔ لیکن منور صاحب اُلٹی چال چلتے ہیں بالواسطہ کو (کہ وزیر بادشاہ کو کہے ، آدمی بزرگ سے دعاء کرائے)تو جائز کہتے ہیں اوربراہِ راست کو (کہ آدمی خود اللہ سے دعاکرے بوسیلہ فلاں کام کردے )کھلا شرک کہتے ہیں ۔ ایک جھوٹی روایت : منور صاحب لکھتے ہیں کہ ''وسیلے کا شرک ایک مدت سے چلا آرہا تھا اللہ کے رسول ۖ کے سامنے جب یہ مسئلہ لایا گیا تو وحی نازل ہوئی واذا سألک عبادی عنی فانی قریب (اسلام یا مسلک پرستی ص٢١)۔یہ جھوٹ ہے کسی بھی چھوٹی سے لے کر بڑی کتاب یا تفسیر میں آیت ِمبارکہ کا یہ سببِ نزول بیان نہیںہوا، یہ ڈاکٹرمسعودعثمانی کا منگھڑت ہے جس وضاع کے منور صاحب لکیر کے فقیر کی طرح مقلد ہیں (وسیلے کا شرک ص٥ اور یہ قبریں یہ آستانے ص٨) علامہ محمود آلوسی رحمہ اللہ کا مسلک : منور صاحب مسئلہ توسل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : '' علامہ آلوسی تفسیر رُوح المعانی ج٦ ص ١٢٥ پر لکھتے ہیں کہ کسی شخص سے درخواست کرنا اور اُس کو اِس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ دعاء کرے اِس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے درخواست کی جارہی ہو وہ زندہ ہو ۔دوسری طرف میت یا غائب شخص سے دعا کرانے کے ناجائز ہونے میں کسی عالم کو بھی شک نہیں ہے الخ''۔(اسلام یا مسلک پرستی ص٢٣ اور وسیلے کا شرک ص١٠) اس عبارت کا تعلق استمدادسے ہے توسل سے نہیں ہے ۔اس کی زیادہ تفصیل مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی عبارت میں ہے وہ فرماتے ہیں : ''استمداد تین قسم پر ہے ایک یہ کہ اہل قبور سے مدد چاہے اِس کو سب فقہاء نے ناجائز لکھا ہے،