ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
مثال سے وضاحت : ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما تھے ، وہ فرمارہے تھے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ یہ یہ فضیلت کی چیزیں ''شام'' میں ہوں گی ،وہ بتلا ئیں اورپھر فرمایا کہ یہ مالک ابن یخامر بیٹھے ہیں یہ یہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ کہ جو غالب رہیں گے باطل پر ،یہ شام میں ہوں گے'' وھم بالشام'' یہ کہہ رہے ہیں یعنی میں نے جناب رسول اللہ ۖ سے جتنا سُنا وہ تو یہ ہے ،اور یہ بیٹھے ہیں یہ یہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے یہ بھی سُنا ہے کہ وہ لوگ شام میں ہوں گے ۔ ''شام'' کے فضائل : توشام کی فضیلتیں تو آئی ہیں کہ مَنَابِرَمِنْ نُوْرٍ نور کے منابر یعنی منبر ادھر منتقل کیے گئے۔ ایک یہ بھی آتاہے کہ چالیس ابدال ہوں گے وہاں رہیں گے شام میں ،تواہل ُاللہ کی ایک جماعت شام میں ہمیشہ ہی رہتی رہی ہے بلکہ وہ علمی مرکز بھی رہا ہے ۔ ایک مقام ہے جہاں سے انھوں نے جو آج کل ہیں حافظ الاسد (سابق صدر شام)یہ شیعہ ہے،اُس خدا کے بندے نے وہاں ''حُمَا '' کو خوب برباد کیا ہے وہاں سے لوگوں کو نکال دیا ہے ، علماء کو نکال دیا ہے وہ خلاف تھے اِن کے ۔بہرحال وہ لوگ بیچارے اِدھر اُدھر آئے ہوئے ہیں کچھ عراق میں ہیں کچھ سعودی عرب میں، کچھ سرحد پر ہیں سعودی عرب کی ، وہ وہاں پڑے ہوئے ہیں آکرتو ''حُمَا'' ایک علمی مقام رہا ہے وہاں پر ۔ دمشق میں'' کتب خانہ ظاہریہ'' ہے وہ بہت بڑا کتب خانہ ہے اوروہاں اہلُ اللہ ایسے کہ جن کے چہرہ تک سے آثارِ خشوع و خضوع ظاہر ہو تے ہیں ،رہتے بھی تھے ا ور ہیں بھی، اب بھی ہیں باوجود اس کے کہ وہاں شیعہ حکومت ہے لیکن ایسے اہلُ اللہ موجود ہیں۔تو شام کے علاقہ کی فضیلت جو آئی ہے تو اُس کے آثار نمایاں طورپر محسوس کیے جاتے ہیں، پائے جاتے ہیں وہاں پر ۔ دارُالخلافہ کی مدینہ منورہ سے منتقلی : آپ کو معلوم ہے کہ مدینہ منورہ میں تو خلافت رہی ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور تک ۔اُن کی شہادت کے بعد مدینہ منورہ دارالخلافہ نہیں رہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگی اعتبار سے کوفہ کو منتخب کیا۔ پہلے سے وہ چھائونی تھا بہت بڑی، اس کو منتخب کیا انھوں نے جنگی نقطہ نظر سے ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں تھے پہلے