ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
تھے''۔غرض آپ ۖ کی ساری زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیر تھی اور یہ بھی آپ ۖ کا ایک معجزہ ہے۔ خود قرآن نے اِس کی شہادت دی اور کہا ؟ ''اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ''یعنی بیشک اے محمد!آپ حسن ِاخلاق کے بڑے رُتبہ پر ہیں''۔ ٭ حضور ۖ نہایت خاکسار، ملنسار، مہربان اوررحم دل تھے۔چھوٹے بڑے سب سے محبت کرتے۔ نہایت سخی ، فیاض اوردادودَہش والے تھے۔ امکان بھر سب کی درخواست پوری کرتے ۔ ٭ فیاضی اوردُنیا کے مال سے بے تعلقی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں نقدی کی قسم سے کوئی چیز بھی ہوتی تو جب تک وہ سب خیرات نہ کردی جاتی آپ اکثر گھر میں آرام نہ فرماتے، خود بھوکے رہتے اور دوسرے کو کھلاتے ۔ ٭ آپ ۖ بڑے مہمان نواز تھے۔ آپ کی مہمان نوازی کا عام شہرہ تھا۔ آپ کے یہاں مسلمان، مشرک اور کافر سب ہی مہمان ہوتے۔ آپ سب کی خاطر کرتے اورخود ہی سب کی خدمت کرتے ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ مہمان آجاتے اورگھر میں جو کچھ موجودہوتا وہ اُن کو کھلاپلا دیا جاتا اورپورا گھر فاقہ کرتا۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر مہمانوں کی دیکھ بھال فرماتے کہ اُن کوکوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ ٭ گھر میںرہتے تو گھر کے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے ، اپنے پھٹے کپڑے آپ سی لیتے ، اپنے پھٹے جوتے خود گانٹھ لیتے، بکریوں کا دُودھ اپنے ہاتھوں سے دوہتے، اگرچہ آپ کے بے شمار جانثار خادم موجود تھے۔ ٭ مجمع میں بیٹھتے تو سب کے برابر ہو کر بیٹھتے ۔مسجدنبوی کے بنانے اورخندق کھودنے میں سب مزدوروں کے ساتھ مل کر آپ ۖ نے بھی کام کیے ۔ ٭ آپ ۖ یتیموں سے محبت رکھتے اور اُن کے ساتھ بھلائی کی تاکید کرتے۔ ٭ غریبوں کے ساتھ آپ ۖ کا برتائو ایسا ہوتا تھا کہ اُن کو اپنی غریبی محسوس نہ ہوتی ۔اُن کی مدد فرماتے اوراُن کی دلجوئی کرتے ، اکثر دعا مانگتے تھے کہ خداوندا مجھے مسکین زندہ رکھ ، مسکین اُٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر کر ۔ ٭ آپ ۖ مظلوموں کی فریاد سُنتے اورانصاف کے ساتھ اُن کا حق دِلاتے، کمزوروں پر رحم کھاتے ، بیکسوں کا سہارا بنتے، مقروضوں کا قرض ادا کرتے ۔ ٭ آپ ۖ بیماروں کو تسلی دیتے ،اُن کو دیکھنے جاتے، دوست دشمن اور مؤمن وکافر کی اس میں