ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
برائی سے روکنے والے ، کوئی بھلی چیز ایسی نہ تھی جس کو عقول سلیمہ بُراجانیں مگر اس سے روک نہ دیاہو، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جس کا آپ حکم دیں اُس کے لیے طبائع سلیمہ کی خواہش یہ ہو کہ آپ اس کا حکم نہ دیتے اور نہ کبھی اس بات سے روکا جس کے متعلق طبائع سلیمہ کی تمنا یہ ہو کہ آپ نہ روکتے۔ اُس پر ریاست و سرداری سے بیزار، دشمنوں اور مخالفوں سے لاپرواہ، احباب وانصار سے بے نیاز ،نہ ہاتھ میں کوئی دولت نہ پشت پر کوئی طاقت، نہ قبضہ میں کوئی ملک ، زن زر کی کوئی دولت نہیں جو قدموں پر نہ ڈال دی گئی ہو اور آپ نے اُس کو ٹھکرا دیا ہو، حبس وقید ،جلا وطنی ،حتی کہ قتل کی کوئی تدبیر اُ ٹھا کر نہیں رکھی گئی جس کو پورا نہ کیا گیا ہو مگر آپ دشمنوں کے جھرمٹ میں اسی طرح خدا کے دین کے بے خوف وہراس منادی کوچوں میں بازاروں میں ایام حج میں کوئی جگہ نہ چھوڑی جہاں پہنچ کراعلان نہ کردیا، تنہائی میں بھی اور محفلوں میں بھی عوام میں بھی اورخواص میں بھی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے اپنے دین کوقبول کرنے کے لیے کسی کو قتل کی دھمکی دی ہو یاکسی قسم کا طمع لالچ دیاہو۔ تیرہ سال اسی طرح گزار دئیے، نہ سازوسامان اور نہ کوئی یارومددگار، مگر دل میں کسی کا خوف نہ چہرہ پر کچھ ہراس ، جب اقتدار ملا تو دشمنوں سے درگزر اور ایذارَسانوں کے لیے عفوکا اعلان ، کسی پر ذرا ظلم وتعدی ہو کیا مجال ، تمام عمر کانٹے پر تلی ہوئی ۔ امن ہو یاخوف، فراغت ہو یا تنگی ، شکست ہو یا فتح ،اپنے متبعین کی قلت ہو یا کثرت، ہرحال میں وہ استقامت کہ قد م ایک اِنچ بھی اِدھر سے اُدھر نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ جب دنیا میں تشریف لائے تو فضائے عالم تاریک ، نہ دُنیاسے باخبر نہ ہدایت سے آشنا ، بُت پرستی سے خدا کی زمین ناپاک ، خونریزی اور قتل وغارت سے نالاں، نہ مبداء کی خبر نہ معاد کا علم اور جب آپ تشریف لے گئے تو وہی سب سے بڑھ کر عالم، سب سے زیادہ مہذب ، سب میں ممتاز دیندار، انصاف وامن کے قائم کرنے والے اور دُنیا کی نظروں میں ایسے سربلند کہ اگر اُ ن پر بادشاہوں کی نظر پڑتی تو وہ مرعوب ہوجاتے اور اگر اہل کتاب اُن کو دیکھتے تو بے ساختہ یہ کہنے پرمجبور ہو جاتے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حوار بھی بھلا اِن سے کیا افضل ہوں گے ؟ اس اقتدار و قبول کے ساتھ جب آپ نے دُنیا کو چھوڑا تو ترکہ میں نہ درہم نہ دینار نہ کوئی ملک و خزانہ ،صرف خچر اور زرہ مبارک کہ وہ بھی ایک یہودی کے ہاتھ صاع جو کے عوض میں مرہون ۔(خطباتِ اکابر ج ١ ص ٣٩ تا ١٤) کسی نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ حضور انور ۖ کے اخلاق کیسے تھے؟انہوں نے کہا ''کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ہے؟ جو کچھ قرآن میں ہے ، وہ حضور ۖ کے اخلاق