ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہ سُلْطَاناً( سورہ ٔبنی اسرائیل ) ''اورجو ظلم سے مارا گیا توہم نے اُس کے وارث کو زور عطا کیا ہے ''۔ یہ بھی حق نہیں کہ اگر کسی کافر حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہوتو اُسے ایفاء نہ کیا جائے ،ارشاد ہوا : وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً ( سورہ ٔبنی اسرائیل ) '' اورعہد کوپورا کرو یقینا عہد کی پوچھ ہوگی''۔ غرض کافر کی بھی جانی حفاظت مسلمانوں کا فرض ہوگا گویا حکومت اسلامیہ میں بچہ ہو یا بڑا ،امیر ہو یا غریب ،مسلمان ہو یا کافرذمی، سب کے سب نہایت امن وراحت کی زندگی بسر کریں گے اور اُن کی جان مذکورہ نصوصِ قرآنیہ کے تحت محفوظ ہوگی۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اورہر مسلم حکومت میں کافر امن وسلامتی کی زندگی گزارتے ہیں، ہندوستان کی طرح نہیں جہاں آئے دن مذہبی فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ارشاد ِربانی مشعل ِراہ ہے : وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلَّا تَعْدِ لُوْا ط اِعْدِلُوْا (سورۂ مائدہ ) ''اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو،عدل کرو''۔ وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ (سورۂ بقرہ) ''خدا کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور کسی پر زیادتی مت کرو، اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ غرض ظلماً قتل کی جملہ صورتیں حرام اور ممنوع قرار دی گئیں اور قوتِ حاکمہ کو قصاص دلانے کا مکلف قرار دیا گیا ۔ اسی طرح آپس میں لڑ بھڑ کر ہاتھ پائوں توڑنے کی سزا بھی مقرر کی گئی اور اس پر بھی سزا وانتقام دلانے کاقوت حاکمہ کو مکلف قرار دیا گیا ،یہی حکم پچھلی اُمتوں سے چلا آرہا ہے۔ارشادِ ربانی ہے : وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاص ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہ فَھُوَ کَفَّارَة لَّہ