ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2005 |
اكستان |
|
کا ہی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں'' ۔ قرآنِ پاک نے امن ِعالم کے لیے دُنیا کو کیا پیام دیا؟ یہی میرا موضوع ہے ۔اگر اس پر شرح وبسط سے بحث کی جائے تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی جا چکی ہیں لیکن مجھے صرف ایک مضمون پیش کرنا ہے گویا صرف اس پہلو سے روشناس کرانا ہے ۔ آپ اگر غور کریںتو معاملات کا تعلق یا جان سے ہوگا یا مال سے یا آبروسے، قرآن کریم نے ان تینوں کو محفوظ فرمادیا ہے۔ اتلافِ نفس کے بارے میں یہ چند اُمور پیش نظر رکھنے ضروری ہیں : (١) حیات ایک انعام خداوندی ہے ۔ (٢) جان ڈالنا خدا کا کام ہے۔ (٣) اس لیے جان وہی لے گا۔ (٤) یا اس کے حکم واجازت سے جان لینی جائز ہوگی کیونکہ وہ ہی مالک ہے۔ کتب ِفقہ میں چڑیوں کا شوقیہ شکار کرنا اور یوں ہی ضائع کردینا کہ نہ خود کھائیں نہ دوسروں کو کھلائیں ممنوع قرار دیا گیا ہے، چہ جائیکہ کسی عاقل کی جان بے وجہ لینا، بلکہ انسان کو اختیار نہیں کہ وہ اپنی بھی جان تلف کرسکے۔کماقال الرازی فی تفسیر قول اللہ تعالیٰ لَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا۔(سورۂ نساء ) ''اپنے آپ کو مت مارو یقینا اللہ تم پر بہت مہربان ہے''۔ اسلام میں یہ بھی حق نہیں کہ کسی کا فر کو بھی جو کسی معاہدہ کے تحت ہمارے ملک میں آیا ہو یا یہاں کا باشندہ ہو جسے ہم نے رہنے کا حق اور امان دی ہو مار سکے کیونکہ ارشاد ِخداوندی ہے : وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ''اورہم نے اس کتاب میں ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ''۔ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّابِالْحَقِّ (سورۂ بنی اسرائیل ) ''اورجس جان کو اللہ نے منع کردیا ہے اُسے مت مارو سوائے اِس کے کہ حق ہو''