ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے ۔اس لیے لازم ہے کہ حکومت پاکستان اس کے ایک ایک حرف کی مکمل وضاحت کے ساتھ تردید جاری کرے اوراصل حقائق کے ساتھ دنیا اوراپنی قوم کو آگاہ کرے کیونکہ ہمارے دشمنوں کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی خبر کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہماری جملہ ایٹمی تنصیبات غیر ملکی فوج اورسائنسدانوں کی نگرانی میں ہیں۔ لہٰذا حکومت ِپاکستان کو درج ذیل اُمور کی نکتہ وار وضاحت جاری کرنی چاہیے۔ (١) کیا بھارتی پارلیمنٹ پر نا معلوم افراد کے حملے کے بعدامریکہ نے واقعی مشرف حکومت پر دبائو ڈالا تھا کہ اگر اُس نے تما م ایٹمی ری ایکٹروں کو اس کی نگرانی میں نہ دیا تو وہ بھارت کو پاکستان پرحملے سے نہیں روکے گا؟ (٢) کیا مشرف حکومت یہ دبائو قبول کرنے پر مجبور ہو گئی؟ (٣) کیا یہ (خدانخواستہ ) درست ہے کہ اس کے اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات یا ری ایکٹروں کو بیک وقت امریکی فوج کے خصوصی دستوں اور سائنسدانوں کی نگرانی میں دے دیا گیا؟ (٤) آج کی صورتحال کیا ہے؟ محولہ بالاکتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 11ستمبر کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملے کامنصوبہ باندھا اورنہ صرف پاکستان سے ہوائی اڈے لیے گئے بلکہ وہاں سے ملک ِافغاناں پر براہ راست حملے کرنے کی خفیہ اجازت اوررازداری میں پاکستان سے زمینی فوجی حملے کرنے کی سہولت بھی حاصل کرلی ۔ لیکن ان باتوں کو اخفا میں رکھنے پراتفاق کرلیا تاکہ مشرف داخلی عوامی دبائو کا مقابلہ کر سکیں اوراس کی تردید کرسکیں ۔یہ بات پچھلے برس امریکہ سنٹرل کمانڈ کی ویب سائٹ پر بھی کہی گئی تھی کہ امریکہ کے زیرِتصرف ہوائی اڈوں سے افغانستان پر ستاون ہزار ہوائی حملے Sorties کیے گئے حالانکہ اس سے قبل جنرل مشرف باربار قوم کو یقین دلا چکے تھے کہ ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس سے قطع نظر ایٹمی تنصیبات والا تازہ الزام انتہا درجے کا سنگین ہے، اس کی فوری تردید اور مکمل وضاحت ضروری ہے۔