ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا ( سورہ بنی اسرائیل١١١ ) ''اور کہہ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جس نے نہیں پکڑی اولاد یعنی اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے''۔ (٢) ارشاد فرمایا : وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذَالِکَ قَوْلُھُمْ بِأَفْوَاھِھِمْ یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قَا تَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ۔( سورة التوبة آیت ٣٠ ) '' اور یہو دکہتے ہیں عزیز خدا کا بیٹا ہے اور نصارٰی (عیسائی) کہتے ہیں مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں، پس کرنے لگے اگلے کافروں کی بات۔ اللہ ان کو ہلاک کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں'' ۔ (٣) قرآن پاک نے عقیدۂ ابنیت کو نہایت قبیح اور ناقابلِ برداشت گناہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا۔اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا یَنْبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ ےَّتَّخِذَ وَلَدًا ( سورہ مریم ٩٠ تا ٩٢ ) '' قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں اس بات پر کہ انہوںنے رحمن کے لیے بیٹا قراردیا حالانکہ خدائے رحمن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا قراردے''۔ الغرض قرآن مجید میں اس غلط نظریہ کی نہایت مذمت کی گئی ہے اسے شدید کفر قرار دیا گیا ہے اور متعدد مقامات پر نہایت اہتمام سے اس کی تردید کی گئی ہے ،چنانچہ سورہ کہف کے شروع میں نزولِ قرآن کا مقصد دوچیزوں کو بتایا گیا ہے : (١) ایک تو ہر خطاکار اور مجرم کو برے انجام سے آگاہ کرنا ۔ (٢) دوسرے ان لوگوں کو متنبہ کرنا جنہوں نے کہا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنالیاہے۔