ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
از انجملہ یہ ہے کہ دوسرے سے کوئی مسئلہ یا بات پوچھی جارہی ہوتو تم مجیب نہ بن جائو ۔ حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اِیَّاکَ اِذَسُئِلَ غَیْرُکَ اَنْ تَکُوْنَ الْمُجِیْبُ خبر دار! دوسرے سے سوال ہوتو تم مجیب نہ بنو۔ ابن ِبطہ کہتے ہیں میں ابو عمر زاہد کی مجلس میں تھا ،کسی نے اُن سے ایک مسئلہ پوچھا ، میں نے پیش قدمی کرکے جواب دے دیا، تو ابو عمر نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ فضولیات کے ماہر معلوم ہوتے ہیں ، یہ سن کر میں بہت شرمندہ ہوا۔ اسی کتاب الآداب الشرعیہ میں ہے کہ ابو عبیدفرماتے تھے علم کا شکریہ بھی ہے کہ تم جب کسی سے علمی مذاکرہ کرو، اوراُس مذاکرہ سے تم کو نئی معلومات حاصل ہوں تو بعد میںجب کبھی ان معلومات کا ذکر آجائے تو تم کو صاف صاف کہنا چاہیے کہ مجھے ان کی نسبت کچھ معلوم نہ تھا،تا آنکہ فلاں سے مذاکرہ ہوتو اُس نے مجھے یہ بتایا،ایسا کروگے تو علم کا شکریہ ادا ہوگااِس طرح بیان نہ کرو کہ گویا تم اپنی طرف سے یہ تحقیق بیان کررہے ہو۔ (٢/١٧٩) اسی کتاب میں امام شافعی سے منقول ہے کہ اس علم کو کوئی حکومت اور عزتِ نفس سے حاصل کرکے فلاح نہ پائے گا ،ہاں جواِس کو ذلت نفس اور عسرت برداشت کرکے اور علم کی خدمت اور تواضع کرکے حاصل کرے وہ فلاح پائے گا ۔ (الآداب الشرعیہ ٢/٢٧) اصمعی سے منقول ہے کہ جو آدمی شاگردی کی ذلت تھوڑی دیر برداشت نہ کرے وہ جہالت کی ذلت میں عمر بھر گرفتار رہے گا۔ ابن المعتز نے کہا کہ جو طالب متواضع ہوگا اُسی کو زیادہ علم حاصل ہوگا ،جس طرح پست جگہ میں زیادہ پانی اکٹھا ہوتا ہے ۔حضرت زین العابدین مسجد میںآتے تو انبوہ میںگھس کر زید بن اسلم (حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام )کے حلقہ میں جا بیٹھتے، کسی نے ٹوکا تو فرمایا کہ علم کی شان یہی ہے اُس کے پاس آیا جائے اورطلب کیا جائے جہاں کہیں بھی ہو ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک دن امام اعمش کسی طالب علم پر غضبناک ہو گئے ،دوسرے طالب علم نے کہا مجھ پر اِس طرح خفا ہوتے تو میںان کے پاس بھی نہ آتا ، یہ سن کر امام اعمش نے فرمایا کہ تمہاری طرح وہ بھی احمق ہے کہ میری کج خلقی کی وجہ سے اپنے نفع کی چیز چھوڑبیٹھے۔(الآداب الشرعیہ٢/٢٨۔٢٩) علامہ ابن الجوزی نے فرمایا کہ اپنے سے زیادہ عمر یا علم والے کی موجودگی میں تحدیث ِنعمت نہ کرے ۔امام شعبی جب ابراہیم نخعی کے ساتھ ہوتے تھے تو ابراہیم کلام نہیں فرماتے تھے ۔امام سفیان ثوری نے ابن عینیہ سے ایک بار فرمایا کہ آپ حدیث کیوں نہیںسناتے یعنی روایت حدیث کا مشغلہ کیوں نہیں اختیار فرماتے ؟ تو انھوں نے