ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
اس کی ایک وجہ موصوف کی جانب سے بار بار اعلانات اور قوم کو مسلسل یقین دہانی ہے کہ وہ ملک کے ایٹمی پروگرام پر آنچ نہیں آنے دیں گے ، ہماری جملہ ایٹمی تنصیبات محفوظ ہاتھوں میںہیںکوئی غیر ملکی اِن کی نگرانی کرسکتاہے نہ انہیںغلط استعمال میںلایاجاسکتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام حکمرانوں نے خواہ وہ جمہوری و منتخب ہوں یا فوجی اس بارے میں کبھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سخت سے سخت تردبائو کا مقابلہ کیا ہے ۔کئی مفادات قربان کیے ہیں لیکن ایٹمی پروگرام کی عصمت اور حفاظت پر حرف نہیں آنے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو توخیر اس پروگرام کے بانی تھے، نواز شریف نے اسے حتمی ایٹمی طاقت میں بدل دیا۔ ان کے درمیان آنے والوں میںسے جنرل ضیا ء الحق نے امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود ایٹمی اثاثوں کی سلامتی کو یقینی بنائے رکھا۔ محمد خان جونیجو اور بینظیر بھٹو کا ریکارڈ بھی اس باب میں شفاف ہے ۔اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جنرل مشرف بھی اس قومی پالیسی کو جو ہمارے دفاع کی ضامن ہے ،جو ہماری ستاون سالہ تاریخ کا واحد قابلِ فخر حاصل ہے جس کے بارے میں قوم کا بچہ بچہ حساس ہے ،جسے ختم کرکے دکھا دینے کے لیے بھارت اوراسرائیل بے تاب ہیں ،جس کے رول بیک یا اپنی نگرانی میںلے لینے کی خاطر امریکہ نے درجنوں سفارتی تدابیر آزمائی ہیں ،جاری وساری رکھنے کے لیے کسی قسم کے دبائو یا تحریص کو خاطر میں نہیں لائیں گے ،نہ انہوں نے پچھلے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ایسا کیا ہوگا۔ لیکن جس خبر یا الزام کو میں ذیل کی سطور میں زیرِ بحث لانے پر مجبور ہواہوں وہ پھیل چکی ہے۔ امریکہ سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں جگہ پا کر پوری دُنیا میں گردش کر رہی ہے ۔پاکستان میں ایک اخبار کے ہفتہ وار میگزین نے بھی اِسے نقل کیا ہے ۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت ِپاکستان اِس کی فوری تردید یا وضاحت جاری کرے۔ اس میں شک نہیں پاکستان مخالفین کی جانب سے اس نوعیت کی الزامی خبروں کی زد میں ہے اس کی تازہ مثال ایران کی حکومت کے مخالف گروپ مجاہدین خلق کی جانب سے وہ الزام ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 2001ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خفیہ نیٹ ورک نے ایران کو انتہائی افزودہ یورنیم مہیا