ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
(15) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت سنبھالنے کے بعد کوئی کاروبار نہیں کرتے تھے بلکہ فرمادیا تھا کہ'' شغلت بامر المسلمین فسیاکل اٰل ابی بکر من ھٰذا المال '' میںمسلمانوں کے کام میں مشغول ہوگیا ہوں لہٰذا آلِ ابوبکر اس بیت المال سے کھائیںگے (تاریخ الخلفاء ص٥٧، ٥٨ ۔اسلام یا مسلک پرستی ص١٦٧، ١٦٨ بحوالہ بخاری ج١ ص٢٧٨)۔حضرت ابوبکر رضی اللہ کا وظیفہ مشورہ کے ساتھ روزانہ آدھی بکری کا گوشت ، پہننے کا کپڑا ، پیٹ بھرائی روٹی کا غلہ مقرر ہوا۔ ایک روایت کے مطابق سالانہ دوہزار درھم تنخواہ مقر ہوئی۔ آپ نے مزید کی د رخواست کی تو پانچ سو درھم کا اضافہ کیا گیا ۔(تاریخ الخلفاء ص ٥٨) (16) حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی خلافت کے ابتداء میں تو نہیں لیتے تھے لیکن جب آپ پر تنگدستی آئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ آپ صبح شام کا کھانا بیت المال سے لیا کریں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور سارے گھر والوں کا صبح شام کا کھانا بیت المال سے لیتے تھے۔ (تاریخ الخلفاء ص١٠٠ بحوالہ طبقات ابن سعد وغیرہ ) ان تمام روایات میں مندرجہ ذیل امور ذکر ہوئے : (١) بیت المال کے لیے صدقات اکٹھے کرنا (٢) قرآن مجید کی تعلیم و تدریس (٣) خلافت اسلامیہ سنبھالنا (٤) اسلامی عدالت میں فیصلے کرنا (٥) قرآن مجید کے دم وتعویذ (٦ ) قرآن مجید بیچنا (٧) قرآن مجید خریدنا (٨) قرآن مجید لکھنا (٩) اذان وامامت وغیرہ۔ یہ سب دینی امور ہیں نیک اعمال ہیں ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ ان امور پر اجرت جائز ہے ۔تعجب ہے کہ منور صاحب نے قرآن مجید کی کتابت کرکے اُجرت لینے والوں اور قرآن مجید بیچنے اور خریدنے والوں اور اسلامی عدالت کے قاضیوں اور حکومت ِاسلامیہ سنبھالنے والے حکام وامراء اور اسلامی سرحدات کی حفاظت کرنے والے فوجیوں کے خلاف جو کہ دینی فریضہ ادا کرتے ہوئے تنخواہ لیتے ہیں نہ کوئی کتاب لکھی نہ رسالہ نہ صفحہ نہ حرف، اگر لکھا تو علماء و قراء کے خلاف۔ منور صاحب انصاف فرمائیں کہ ان دینی امور کو انجام دے کر تنخواہ لینے والوں کے خلاف کیوں کچھ نہیں لکھا اور علماء و قراء کے خلاف کیوں رسالے اور مضامین لکھ مارے؟ دونوں میں وجہ فرق کیا ہے ؟ کیا یہی وجہ نہیں کہ علماء قراء انتقام نہیں لے سکتے اور نہ لیتے ہیںجبکہ حکام و افواج اور سپاہ گن، ہتھیار اور ڈنڈے کے ذریعے انتقام لے سکتے ہیں اس لیے ڈر کے مارے اِن کے خلاف کچھ نہ لکھا اور شرفاء کو معاف نہ کیا۔ (جاری ہے)