ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
اور یہی غرض علماء واساتذہ کے وظیفہ کی ہے۔ (2) اس بارے میں بکثرت روایات مروی ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا نبی کریم ۖ نے کسی مریض پر دم کیا اور اس پر اُجرت لی اور کئی روایات میں نبی ۖ نے صحابہ کرام کے اس عمل پر بجائے ناخوشی کے رضا کا اظہار فرمایا مثلاً : ''حضرت خارجہ بن صلت اپنے چچا (علاقہ بن صحار یا عبداللہ بن عشیر) سے جو کہ صحابی ہیں روایت کرتے ہیں کہ ہم (صحابہ کرام کی ایک جماعت )نبی کریم ۖ کے پاس سے ہوکر واپس ہوئے تو عرب کے ایک قبیلے کے پاس سے گزرے، انہوں نے ایک آدمی کے جنون میں مبتلا ہونے کا ذکرکیا اور دم کرنے کی فرمائش کی تو میں نے اس پر تین دن روزانہ صبح شام دودوبار سورۂ فاتحہ کا دم کیا وہ ٹھیک ہو گیا تو انہوں نے سو بکریاں دیں۔ میںنے آکر نبی کریم ۖ سے ذکر کیا آپ ۖ نے فرمایا کُلْہَا بِسْمِ اللّٰہْ اللہ کے نام سے کھائو، میری عمر کی قسم جو باطل دم سے کھائے تو حرام ہے تو نے تو حق دم سے کھایا ''( ابودائود ص ١٨٨ج ٢۔ ابن ابی شیبہ ج٥ ص٤٤٥ ۔ دارقطنی ج٤ ص٣٥٣ ۔ درمنثور ج١ص ٥ بحوالہ مسند احمد ونسائی وابن سنی وحاکم والدلائل للبیہقی )۔ اس روایت کو امام حاکم نے ''صحیح'' کہا، شیخ مجدی حسن نے ''حسن ''کہا۔ ڈاکٹر مسعودعثمانی نے اس کے راوی حضرت خارجہ کو'' ضعیف'' کہا حالانکہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں'' مقبول'' ہے (تقریب) ۔ ''حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سفر پر تھی ایک قوم کے پاس سے گزرے۔ اُن کے سردار کو سانپ یا بچھو نے ڈس لیا تھا تو انہوں نے صحابہ کرام سے دم کا کہا تو ایک صحابی نے فرمایا ہم اس وقت تک تمہارے سردار پر دم نہ کریں گے جب تک تم ہمیں اس کی (یعنی اس دم کی ) اُجرت دینے کا وعدہ نہ کرو ،آخر ٣٠ بکریاں لے کر آئے آپ ۖ نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور فرمایا میرا بھی حصہ نکالو'' (ابودائود ج٢ ص ١٨٨ ۔ابن ابی شیبہ ص٤٤٦ج٥۔ بخاری ص٨٥٤ ج٢ و ص ٣٠٤ ج ١ ۔(تعویذات اور شرک ڈاکٹر عثمانی ص١٣)