ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2005 |
اكستان |
|
مومن بندے کی یہی وہ ادائیں ہیں جن کے طفیل اللہ رب العزت رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے، بڑے بڑے گنہگاروں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورحاجی اپنے ربِّ کریم کے دربار سے اس طرح لوٹتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے بے گناہ پیدا ہوا ہو۔ حدیث شریف میں اس خوش خبری کی صراحت ان الفاظ میںآئی ہے۔مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَ تْہُ اُمُّہ ۔ (بخاری شریف ٢/٢٠٦) ''جس نے محض اللہ کے لیے حج کیا پس اُس نے ایسی باتیں نہ کیں جو عورتوں کے ساتھ ہوتی ہیں اورگناہ نہ کیے تو ایسا واپس ہوگا جیسا اُس روز تھا جس دن اُس کی ماںنے اسے جنا تھا''۔ حج اجتماعی بندگی کی و اضح ترین علامت ہے ۔ حج کے دوران مومن بندہ اپنے خالق سے وحدتِ عمل کا معاہدہ کرتا ہے، وہ اپنے ہر ایک عمل سے خدا وند ِقدوس سے اپنے رابطے کی شہادت پیش کرتا ہے۔ اعمالِ حج کے دوران حاجی موت وحیات کو بہ خوبی سمجھ لیتا ہے وہ چلتی پھرتی آبادی کے اِس سیلاب سے میدانِ محشر ،اہل ِ محشر اور اہلِ محشر کی حالت کا اندازہ کرلیتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ سبھی لوگ دوڑ دھوپ میںلگے ہوئے ہیں تاکہ اپنے فرائض کو ٹھیک طریقے سے سمجھ لیں اور ہر فریضے کو صحیح طریقے سے ادا کریں اور کسی فریضے کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو، ان کا حساب یہیں صاف ہو جائے اور کسی بھی کوتاہی اور جرم کا دَم اُن کے ذمے باقی نہ رہے۔ میدان ِعرفات کا منظر بھی قابل دید ہوتا ہے ،دُور دُور تک جدھر بھی نگاہ اُٹھا کر دیکھو تمام لوگ ایک ہی جیسے لباس میں متحد الشکل نظر آتے ہیں ، تاحد ِنگاہ انسانوں کا سیلاب اُمنڈتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد اسلامی تعلیمات کی عظمت،شان و شوکت اوراجتماعی بندگی کا اندازہوتا ہے یہاں کوئی شخص کمانڈروحاکم نہیں اس نظام کی تنظیم کا کوئی ناظم نہیں اور کسی کو محکومیت کا احساس نہیںبلکہ تمام لوگ یکساں ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں، سبھی محترم ہیں، سبھی دنیوی امتیازات سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں، کسی میں مال ودولت کی ہوس اور سماجی عہدہ ومقام اور دُنیاوی شان وشوکت کے حصول کی خواہش نہیں ،سب اپنے گناہوں کی معافی کے لیے آئے ہیں، سب غوروفکر میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر اُن کی فکر دنیا کے سلسلے میں نہیں بلکہ اُن کی فکر کا محور آخرت ہے ۔ سب اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اس یقین کے ساتھ آئے ہیں کہ اس در کے علاوہ کوئی در نہیں، ان کی آنکھوں سے توسیلِ اشک رواں ہے مگر وہ دل سے یہ کہہ رہے ہیں : '' اے اللہ ! تورحمن ہے، ہم ہزار برے ہیں لیکن ہمارے گناہوں سے زیادہ وسیع تیری رحمت کی چادر ہے''۔