ماہنامہ انوار مدینہ لاہور ستمبر 2004 |
اكستان |
|
محمول کیا ہے کہ جب سفرِ معراج کے لیے تشریف لے جانے لگے تو آپ نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھے پھر بیدار ہوئے یا محدثین کے نزدیک انتہاء سفر پر محمول ہے ۔جب حضور علیہ السلام نے سفر معراج طے کیا اور واپس مسجد حرام تشریف لائے تو تھکان کی وجہ سے سو گئے پھر بیدار ہوئے ۔اس تطبیق کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ عام مشہور روایات جو اس سفر کی بحالت ِبیداری جسمانی طورپر ہونے پر دال ہیں ،یہ روایت اُن کے مطابق ہوجائے ۔ورنہ شریک راوی کی روایت کو غلطی پر محمول کرنا پڑے گا کہ اُس نے ابتداء سفر یا انتہاء سفر کی حالت کو درمیانی واقعہ میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح قرآنِ پاک کی آیت وما جعلنا الرؤیا التی اریناک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القرآن ''ہم نے نہیں کیا اِس دکھاوے کو جو آپ نے دیکھا اور بُرادرخت( جس پر لعنت ہے قرآن میں )مگر لوگوں کے امتحان ِ ایمان کے لیے''۔ اہلِ زیغ اور الحاد نے جس طرح شریک کی مخلوط روایت سے استدلال کیا اِسی طرح اس آیت سے بھی استدلال کیا کہ قصۂ معراج منامی واقعہ ہے کیونکہ معراج کے واقعہ کے لیے آیت مذکورمیں لفظ رؤیا استعمال کیا گیا ہے وہ خواب کے معنی میں ہے ،یہ استدلال بھی غلط ہے۔ اس وجہ سے کہ یہ لفظ دکھا وے کے معنی میں عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے خواہ خواب میں دیکھنا ہویا بیداری میںہو۔ امام لغت صاحب قاموس نے تصریح کی ہے کہ لفظ رؤیا جسم کی آنکھ سے دیکھنے کے معنی میں آتاہے ۔نیز شعرائے قدیم میںسے راعی نے رؤیا کو آنکھ سے دیکھنے کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ وہ شکاری کی تعریف کرکے لکھتا ہے وکبر للرؤیا وھش فؤادہ وبشر قلبا کان جمّا بلا بلہ ''شکاری نے شکار کو دیکھ کر اللہ اکبر کہا اور اس کا دل خوش ہوا اور ایسے دل کو خوشخبری سُنائی جس کی پریشانیاں بہت تھیں ''۔ اس شعر میں جسمانی طورپر دیکھنے کے لیے لفظ ''رؤیا ''کو استعمال کیا گیا ہے ۔ متنبی شاعر نے بھی اسی معنی میں رؤیا کو استعمال کیا ہے ۔ وہ اپنے ممدوح بدربن عمار کی تعریف میں کہتے ہیں مضی اللیل والفضل الذی لک لا یمضی ورؤیاک اعلی فی العیون من الغمض ''رات ختم ہوئی اورتیری خوبی ختم نہیں ہوتی ۔ تیرا دیکھنا آنکھوں میں نیند سے زیادہ شیریں ہے ''۔ یہاں لفظ رؤیا بیداری کی حالت میں استعمال ہوا ۔ ان دلائل سے قطع نظر اگر لفظ رؤیا خواب اور بیداری دونوں حالتوں کے دیکھنے کے لیے مشترک ہے تو خود قرآن نے اس کے بیداری کی حالت میں دیکھنے کے معنی متعین کردیے کہ قرآن نے اس دکھاوے کو جو حضور علیہ السلام نے معراج میں دیکھا فتنة للناس کہہ کر امتحان ایمان قرار دیا اور بموجب روایت اہلِ مکہ نے امتحاناً حضور ۖ سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے احوال دریافت کیے۔ اگریہ خواب کا واقعہ ہوتا تو