ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
٣۔ ابو دائوو ترمذی وغیرہ میں حضرت سلمان سے روایت ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حیّ اور سخی ہیں جب بندہ اُس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اُسے خالی اور نامراد واپس کرتے شرم آتی ہے۔(زین الحلم شرح عین العلم ص ١٠٢ ج١) اور تعلیق الصبیح ص٥٢ج ٣ میں ہے کہ دعا کے اندر ہاتھ اُٹھانے کی سنت اولین وآخریں سے جاری چلی آرہی ہے اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عجزوابتہال اور تضرع کا مظاہرہ کرنا دعا کے آداب میں سے ہے تو پسندیدہ بات یہی ہے کہ اخلاص کے ساتھ قولاً وفعلاً اپنے عجز و انکسار کا اظہار کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرنا اور ساتھ ساتھ اپنی احتیاج ومسکنت کا اعتراف کرنا ''تضرع قولی'' ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی جناب میں دست ِسوال دراز کرنا ''تضرع فعلی'' ہے اور ان دونوں کے جمع ہونے سے اجابتِ دعا کی اُمید زیادہ قوی ہوجاتی ہے ۔ اور ملا علی قاری شرح اربعین ص ٨٦ پر بیان فرماتے ہیں کہ بندے کادعا کے وقت ہاتھ اُٹھانے سے بندہ کی ذات و عاجزی اور انکساری وافتقار کا عجیب مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہاتھ اُٹھانے کی ہیئت و کیفیت کا بیان ١۔ دعا ء میں ہاتھ کس قدر بلند کیے جائیں : دونوں ہاتھوں کا اِس قدر اُونچا کیا جائے کہ سینے یا کندھوں کے مقابل ہوجائیں اور سینے کے قریب ہوں بلکہ سامنے کی سمت میں بڑھے ہوئے ہوں اور ہاتھوں کو اُٹھانے کایہی اوسط درجہ ہے اور آنحضرت ۖ دُعا کے وقت اکثر اپنے ہاتھوں کو اتنا ہی اُٹھاتے تھے ۔باقی جن احادیث سے ہاتھوں کو زیادہ اُوپر اُٹھانا معلوم ہوتا ہے تو یہ صورت بعض اوقات پر محمول ہے یعنی جب دعا ء میں بہت ہی زیادہ استغراق ، مبالغہ اور محویت منظور ہوتی تھی مثلاً استسقاء یا سخت آفات ومصائب کے وقت تو اُس موقع پر اپنے ہاتھوں کو اتنے اُٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی چنانچہ علامہ طحطاوی حاشیہ مراقی ص ١٧٣پر فرماتے ہیں : ''وفی الحِصن الحصِین وشرحہ ان یرفعھما حذائَ منکبیہ باسطاً کفیہ نحوالسمائِ لانھا قبلة الدعائِ (١ھ) واما ماروی انہ کان یرفع یدیہ حتی یرٰی بیاض ابطیہ فمحمول علٰی بیان الجواز او علٰی حالة الاستسقاء ونحوھا من شدّة البلائِ والمبالغة فی الدعائِ''۔ اوراسی مقام پر علامہ طحطاوی بعض افاضل سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہاتھوں کو خواہ سینے تک اُٹھایاجائے