ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
یا کندھوں تک دونوں صورتیں جائز ہیں اور ان میں معمولی تفاوت ہے۔ باقی علماء نے لکھا ہے کہ جس مقصد و مراد کے لیے دعا مانگی جارہی ہو وہ مقصد جتنا زیادہ اہم ہو، دعا کے وقت دونوں ہاتھ بھی اتنے ہی زیادہ اوپر اُٹھانے چاہئیں (تعلیق الصبیح ص٥٢ج ٣)۔ ٢۔ کیا دُعا کے وقت دونوں ہاتھوں کو باہم ملایا جائے یا کشادہ رکھا جائے : علامہ طحطاوی نہر الفائق کے حوالے سے لکھتے ہیں : ''وفی النھر من کیفیتہ المستحبة ان یکون بین الکفین فرجة وان قلت'' ''یعنی ہاتھ اٹھانے کی مستحب کیفیت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی کسی قدر ہونی چاہیے خواہ قلیل ہی کیوں نہ ہو''۔ اور اس کے آگے علامہ موصوف حصن حصین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دعاء کے آداب سے ایک یہ بھی ہے کہ دونوں ہاتھوں کو باہم ملایا جائے اور اُنگلیوں کا رخ بجانب قبلہ ہونا چاہیے ۔ ''وفی شرح الحصن والظاہر ان من الادب ایضاًضم الیدین وتوجیہ اصابعھما نحو القبلة ''۔ اور آگے فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کا باہم ملانا افضل اور بہتر ہے اوراگر معمولی کشادگی رکھی جائے تو بھی جائز ہے اور امام شعرانی فی الواقح الانوار ص٧٢٩ پر فرماتے ہیں ۔ آسمان کی طرف دعا کے وقت ہاتھ اُٹھانے میں حکمت یہ ہے کہ دربارِ خداوندی سے معنوی عطیات حاصل کرنے کے لیے ہاتھ ایک ذریعہ ہیں۔ پس دونوں ہاتھوں کو باہم اس قدر ضم کیا جائے جس طرح پانی پینے والا اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم ملاتا ہے۔ ٣۔ کیا ہاتھ اُٹھاتے وقت ہتھیلیوں کا رُخ اپنے منہ کی طرف ہونا چاہیے یا آسمان کی طرف : دعاء کے وقت ہاتھ اُٹھاتے ہوئے ہتھیلیوں کا رُخ آسمان کی طرف ہونا چاہیے اور ایک روایت میں جو حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ آنحضرت ۖ جب دُعا مانگتے تھے تو دونوں ہتھیلیاں ملالیتے تھے اور اُن کا رُخ اپنے منہ کی طرف رکھتے تھے۔ (زین الحلم ص ١٠٢ ج ١) تو اس کے متعلق ملا علی قاری شرح اربعین نوویہ ص ٨٦، ٨٧ پر لکھتے ہیں ک: ''جاء ایضاً انہ رفع یدیہ وجعل ظھورھما الٰی جھة القبلة وجعل بطونھما مما یلیہ لعلہ لبیان الجواز''۔