ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
مالِ محمود اور مالِ مذمُوم دارالاسباب دنیا میں انسان کو وہ چیز بہت محبوب ہوتی ہے جس کے ذریعہ اُس کے سارے کام بآسانی ہوں اور وہ ''مال ودولت'' ہے ۔ د ُنیا کے سارے کام اس کے گرد گھومتے ہیں۔ اس کے ذ ریعہ تقریباً ہر کام بہ سہولت اور جلدی ہو جاتا ہے ۔دنیا میں تمام خواہشا ت اِس کے ذریعہ جلد پوری جاتی ہیں ۔ اس لیے انسان کو اِس (مال ودولت) سے بہت محبت ہوتی ہے ۔ ہر وقت اس کے کمانے اور جمع کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے محفوظ رکھتا ہے۔مال فی نفسہ بُری چیزنہیں ۔ اس کا استعمال جیسے ہوگا ویسے ہی اُس کا حکم ہوگا ۔اگر دولت خدمت ِاسلام کے لیے استعمال ہوتو پھر یہ بُری چیز نہیں بلکہ مُبارک اور محمود ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی تعالیٰ عنہ وغیرہ حضرات کے اموال جو اسلام ہی کے لیے خرچ ہوئے اور انہوںنے اس کے ذریعہ حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی۔ ہاں اگر مال کا استعمال غلط طرح ہو مثلاً شراب نوشی ، رشوت، زنا کاری اور دیگر ناجائز اُمور پر صرف کیا جائے اور زکٰوة نہ ادا کی جائے ، مستحقین کی امداد نہ کی جائے، پڑوسیوں کا خیال نہ رکھا جائے، امانت واپس نہ کی جائے ، غرضیکہ ناجائز طرح سے کمایا جائے اور ناجائز طرح سے خرچ کیا جائے تو ایسا مال وبال بن جاتا ہے۔اوریہ تمام خرابیاں (بخل خیانت وغیرہ ) مال کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوئیں ۔ اس لیے جناب رسول اللہ ۖ نے بارہا انسان کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ مال کی محبت دل سے نکال دو تاکہ وہ تمام خرابیاں جاتی رہیں جو مال کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ انسان کو اگر مال ودولت سے محبت ہوتو وہ مال غلط استعمال کرتا ہے اور غلط ذرائع سے کماتا ہے ۔اگر اس کو خدا اور رسول ۖ سے حقیقی محبت ہو تو وہ مال خدا اور ر سول ۖ کے منشاء کے مطابق کماتا اورخرچ کرتاہے ۔ آقائے نامدار ۖ نے جس چیز سے روکا ہے وہ مال کی محبت ہے۔ مال کمانے سے منع نہیں فرمایابلکہ کمانے کے جائز طریقے خود بتلائے ہیں۔ بعثت سے پہلے آپ ۖ خود بھی تجارت فرماتے رہے اور بڑا نفع حاصل کیا جو روایت آج بیان کرنی تھی یہ اس کی تمہید ہوئی ،روایت میں ارشاد ہے : یقول العبد مالی مالی یعنی بندہ کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے یہ میرا مال ہے ۔ وان مالہ من مالہ ثلث حالانکہ جو کچھ اسے حاصل ہے اُس میں سے اِس کا صرف تین طرح کا مال ہے : (١) ما اکل فافنی یعنی جو کھا لے اور اُسے فنا کردے۔ فنا کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھایا ہی نہیں بلکہ ہضم بھی کرلیا۔ اور جوکھایا نہیں یا کھایا تو ہے مگر اُسے ہضم نہیں کرسکا تو یہ مال اُس کا نہیں۔ اولبس فابلی یا پہنے اور پہن کر پُرانا