ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
اقبال کے آئینہ گفتار میں (مولانا ڈاکٹر عبدالرحمن ساجد الاعظمی ،استاذ مدرسہ عربیہ امدادیہ مراد آباد) مغربی تہذیب آج اکثر عوام وخواص کی پہلی پسند بن چکی ہے ،اب لباس تراش خراش حتی کہ گفتار ورفتار میں بھی مغرب کی نقالی کا فیشن بن گیا ہے اور فکری مرعوبیت لوگوں کے دل ودماغ پر مسلط ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کے مفاسد اور نقصانات پر اُمت کو اپنے حکیمانہ اشعار کے ذریعہ باربار متنبہ کیا ہے ،انہیں اشعار اوران کے پس پشت مضامین کا فاضل مضمون نگار نے احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے ،اُمید ہے کہ یہ مضمون دل چسپی اورشوق سے پڑھا جائے گا۔ (مرتب) علامہ اقبال نے لکھا اور کہا ، لوگوں نے پڑھا اور سنا ،رفتار زمانہ کے ساتھ جہاں معنی میں افکار کی گوناگوں تبدیلی یا گفتار وعمل کی بے ربطی نے اقبال کی شخصیت میں کیفیت تضاد کی کچھ جگہ ضرور بنالی ہے۔ ان میں کچھ تو تاویل سے بالاتر اور کچھ پیش وپس کے پس منظر میں فکر و شعور کی بدلتی ہوئی کیفیات کا مظہر ہیں۔ زندگی کی نشاط انگیزیوں اور جلوۂ حسن کی تابانیوں سے گزر کر قلب ونظر کی دنیا کو وادی ایمن کے نورسے روشن کرلینا ،مناظرِ قدرت کی نقاشی وترجمانی کرتے کرتے ملت اسلامیہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اُس کے امراض وعلاج کی تشخیص و تجویز کے لیے مضطرب وبے چین ہوجانا محض توفیق ِالٰہی کی بات ہے۔ اوریہ خوش نصیبی (اپنے ابتدائی دور کی ادبی کیفیت اوریورپ سے واپسی کی مناسبت سے یا تو سیّد قطب شہید کے حصہ میں کرداروعمل بن کر اُبھری یا اقبال کے آئینۂ اشعار میں ملت کا سوز اور اعتماد کی قوت لے کر جلوہ گر ہوئی ،ورنہ تو مصروعرب کی سرزمین سے لے کر خاکدانِ ہندوپاک تک ادب کا ایک بڑا قافلہ اپنی آزاد فکر یا مغربی فکر کی ترجمانی پر تیز گام رہا، اس کے پس پردہ کون سے عناصر کا رفرماہیں ، یاتو ، دقت نظر کی کوتاہی ،یا وقتی اور عارضی لذتیں ، یا شہرت ونمود کی خواہشیں۔ یہ بات چاہے تلخ ہو، مگر سچ یہی ہے کہ ایک آزاد مصلحت کوش ادیب ودانشور اور منصب واقتدار کا حریص ٹولہ ، ذرا سی مفاد پرستی ،تحفظ ِمنصب یا اُس کے حصول کے عوض سب کچھ دائو پر لگا دیتا ہے بلکہ خود حرم کے تقدس کو پامال کرنے کی راہیں بھی استوار کردیتا ہے۔ ع حرم رُسوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے