ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
تھا گویا کہ سخاوت کی پُر لطف ہوائیں چل رہی ہوں۔ کبھی آپ نے کسی سائل کو ''نہیں ''کہہ کر محروم نہیں فرمایا (مسلم شریف ٢/٢٥٣) ۔بعض مرتبہ اگر اپنے پا س دینے کو نہ ہوا تو قرض لے کر سائل کی ضرورت پوری فرمائی (مکارم الاخلاق ٢٥٤)۔ متعدد مرتبہ ایسے واقعات پیش آئے کہ بعض دیہاتیوں نے آپ کی چادر پکڑ کرکھینچ لی اور آپ سے عطا کا مطالبہ کیا آپ نے اس نامناسب طرز عمل کے باوجود انھیں اپنی عطاسے محروم نہیں کیا بلکہ ان کے مطالبہ کو پورا فرمایا (مکارم الاخلاق ٢٤٨) اورایک مرتبہ ایک نومسلم شخص کو اس قدر بکریاں عطا فرمائیں کہ سارا میدان بکریوں سے بھر گیا، اُس نومسلم نے اپنی قوم میں جاکر کہا کہ اسلام کے آئو ! اس لیے کہ پیغمبر علیہ السلام کی عطا اس قدر ہے کہ بس زندگی بھر فقر و فاقہ کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ (مسلم شریف ٢/٢٥٣، الترغیب والترہیب للیافعی ٨٧) پیکر شرم وحیا : سرور ِکائنات فخر دوعالم ۖ نہایت اعلیٰ درجہ کے باحیا شخص تھے بلکہ یوں کہیے کہ آپ کو صفت ِحیا کا مبلغ بنا کر ہی اللہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا ۔ آپ نے شرم وحیا کو اسلام کی امتیازی خوبی قرار دیا ہے ( شعب الایمان ٦/١٣٦) اور اس صف کو ایمان واسلام کا لازم بتایا ہے (شعب الایمان ٦/١٤٠) چنانچہ خود آپ کی زندگی شرم وحیا کا مقدس عنوان تھی۔ حضرات ِصحابہ رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ : ''پیغمبر علیہ السلام کنواری نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ شرم وحیا سے متصف تھے اور جب آپ کو کسی بات پر ناگواری ہوتی تو ہمیں آپ کا چہرہ دیکھ کر ہی اس کا اندازہ ہوجایا کرتا تھا۔ (مسلم شریف ٢/٢٥٥) صلی اللّٰہ علیہ الف الف مرة۔ رحمتِ عالم : چشم فلک سے کبھی وہ اندوہناک منظر اوجھل نہیں ہو سکتا جب طائف کی سرزمین پر محبوب رب العالمین کے جسم اطہر (فداہ ابی وامی) کو لہو لہان کیاجارہا تھا، اوباش لڑکوں اور غنڈوں کا ٹولہ مجسم رحمت عالم (ۖ) کے درپے آزار تھا ، پوشاک مبارک اورنعلین شریفین خون سے تر بتر تھے۔ ایسے میں دل کے اندر جتنے بھی انتقامی جذبات آتے کم ہی کم تھے لیکن قربان جائیے رحمة للعا لمین ۖ پر کہ ان گستاخوں ، ظالموں اور بدکرداروں کے بارے میں جوابی کارروائی تو درکنار کوئی بددعائیہ جملہ بھی زبان پر نہ لائے حتی کہ جب پہاڑوں پر مامور فرشتہ نے دست بستہ آکر عرض کیا کہ حضرت !اگر حکم ہوتو ابھی اِن گستاخ اہل طائف کو انہی دونوں پہاڑوں کو ملا کر کچل دیا جائے اور ان کا نام ونشان مٹا دیا جائے تو پیغمبر علیہ السلام نے جوجواب دیا وہ دنیائے انسانیت کی تاریخ میں لعل وگوہر بن کرثبت ہوگیا، آپ گویا ہوئے :