ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
کے ادراک کے لیے معین ومددگار ثابت ہو۔ خداوند تعالیٰ نے انسان کی اس فطرت کا لحاظ فرماتے ہوئے اپنی عبادت کے لیے قبلہ متعین فرمایا اور اسے بمنزلہ دربارِ شاہی کے قراردیا۔ پس نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا گویا دربارِ خداوندی میں حاضر ہونا ہے ۔ اور قراء ت و تسبیحات بمنزلہ مدح وثنا ء شاہی ہیں ۔اور رکوع و سجود و قیام و قعود خدمتِ شاہی میں مشغول ہونے کی مانند ہیں۔ (٢) شریعتِ الہٰیہ کامنشاء یہ ہے کہ مسلمانوں میں باہمی کامل اتحاد و اتفاق اور اُلفت و موافقت ہو۔ اور اس غرض کے لیے تمام مسلمانوں کے لیے ایک مرکز کا تعین ناگزیر تھا۔ اور قدرتی طورپر مسلمانوں کے لیے یہ مرکز بیت الحرام ہی قرار دیا جاسکتا تھا کیونکہ مکہ مکرمہ آنحضرت ۖ کی ولادت گاہ ہے ۔ خانہ کعبہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد اور اولین عبادت خانہ ہے جس کو حضرت آدم علیہ السلام اور پھر حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام نے اسی مقصد کے لیے تعمیر کیا تھا ۔ پس یہ بالکل مناسب ہے کہ اُمتِ محمدیہ کے افراد اور ملتِ حنیفیہ کے پیرووں کے لیے اسی کو قبلہ قراردیا گیا۔ (از افادات امام رازی۔ ماخوذ از قاموس القرآن ص ٣٩٥) نیز تعینِ قبلہ کے فلسفہ کو علامہ رشید رضا مصری نے اپنی تفسیر المنار ص٤٦٢،٤٦٣ ج اول میں اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے۔ طالبِ تفصیل وہاں ملاحظہ فرمالیں۔ ادب ٢ : '' ویرفع یدیہ حتی یری ما تحت ابطیہ ضاماً کفیہ جاعلاً بطنھما نحوالسمائِ فھو مروی ''۔ (عین العلم) '' اور آدابِ دُعا سے ایک ہے کہ کہ دُعا کے وقت ہاتھوں کو باہم ملا کر اور ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف کرکے اِس قدر اُونچے کرے کہ بغلوں کے نیچے کا حصہ دکھائی دینے لگے اور یہی (احادیث میں ) مروی ہے''۔ تشریح : یہ امر محقق ہے کہ دعاء کے وقت ہاتھ اُٹھانا امر مسنون ہے۔ اس بارے میں متعدداحادیث وارد ہوئی ہیں : ١۔ مسلم شریف میں حضرت جابر سے مروی ہے کہ آنحضرت ۖ میدانِ عرفات میں تشریف لائے اور قبلہ رُخ ہو کر آپ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ ٢۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ آنحضرت ۖ دعا میں اپنے ہاتھ اس قدر بلند کرتے تھے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی معلوم ہونے لگتی تھی۔ (متفق علیہ)