ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
مدرسہ عربیہ دیوبند کی ابتدائی کارروائی اور اس کے لیے کوشش کرنے والوں میں صرف مندرجہ بالا چار حضرات ہی کا نام سامنے آتا ہے لیکن اس مدرسہ سے قلبی تعلق اس کے لیے دعائیں اورکوششیں کرنے میں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی، حضرت شاہ عبدالغنی صاحب مہاجر مدنی ، حضرت مولانارشید احمد صاحب گنگوہی اور حضرت قاسم العلوم ، سب ہی حضرات داخل ہیں جن کو تاریخی اعتبار سے بانی نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کا اسم گرامی بجز مندرجہ بالا مکتوب کے دارالعلوم دیوبند کے کسی شعبہ میں ١٢٩٠ھ تک نہیں ملتا۔ ہاں ١٢٩٢ھ میں جب دارالعلوم دیوبند کا موجودہ خاکہ تیار ہوا تو اُس میں حضرت مولانا کی شخصیت پیش پیش نظر آتی ہے لیکن افسوس کہ دارالعلوم کی ابتداء ١٢٨٣ھ بتائی جاتی ہے۔ ٣۔ مدرسہ کے مہتمم صاحبان : ١۔ حاجی سیّد عابد حسین صاحب : از ١٢٨٣ھ تا ١٢٨٤ھ۔ دوسری مرتبہ از ١٢٨٦ھ تا ١٢٨٨ھ۔ تیسری مرتبہ از ١٣٠٦ھ تا ١٣١٠ھ ۔ ٢۔ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب : از ٨٤ ١٢ ھ تا ١٢٨٥ھ ۔دوسری مرتبہ از ١٢٨٨ھ تا ١٣٠٦ھ۔ درمیان کی مدت میں ہر دو حضرات یکے بعد دیگرے حج کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ ہماری مندرجہ بالا تاریخی معلومات اور دارالعلوم دیوبند کی روئیداد سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمدقاسم صاحب کبھی دارالعلو م کے مہتمم بھی نہیں رہے۔ ١٢٨٩ھ میں یہاں پہلا دورہ حدیث شریف ہوا اُس وقت کے مدرسین کی فہرست میں بھی مولانا علیہ الرحمة کا اسم گرامی نہیں ملتا ہاں اس میں شک نہیں کہ ١٢٨٦ھ میں حضرت شیخ الہند نے ان سے کتب صحاح ستہ دہلی وغیرہ رہ کر پڑھی ہیں۔ ٤۔ یہ تاریخی تبدیلی کب سے؟ : ہمارے پاس ایک بہت ہی قدیم رسالہ ہے اس کی ظاہری حالت سے اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ اس کی عمر نصف صدی سے زائد ہو چکی ہے ۔ ذیل میں اس کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے : ''دوتین سال سے روئیداد سالانہ مدرسہ عربیہ دیوبند میں جہاں جہاں مدرسہ کا ذکر آیا ہے مولا نا محمد قاسم صاحب کو بانی مدرسہ لکھا ہو ادیکھا جاتا ہے اور نیز جب کہ ٦ جنوری ٠٥ ١٩ء کو جناب لیفٹیننٹ گورنر صاحب بہادر ممالک متحدہ دام اقبالہ بغرض معائنہ مدرسہ عربیہ دیوبند تشریف لائے تو اس بڑے جلسہ میں بھی جس میں علاوہ معززین اصحاب دیوبندو بیرونجات خود ہز آنر بنفس ِنفیس