ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
اللہ کی عبادت کرنے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانے ، اور نماز ، زکٰوة اور روزے کا حکم فرمایا'' ۔ (البدایة والنہایہ ٣/ ٨٠، ٨١ ) سیّدنا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ شاندار تعارفی کلمات سے آنحضرت ۖ کے اخلاقی مقام کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سراپا شفقت : آنحضرت ۖ سراپا شفیق اور مہربان تھے۔ عام طورپر لوگ اپنے خدام اور ملازمین کے ساتھ سختی کا برتائو کرتے ہیں لیکن پیغمبر علیہ السلام کا اپنے خدام کے ساتھ کیا برتائو تھا؟ خادم ِرسول سیّدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی زبانی سُنیے ،فرماتے ہیں : ''میں نے پیغمبر علیہ السلام کی دس سال تک خدمت کا شرف حاصل کیا ، قسم بخدا ! اِس عرصہ میں کبھی آپ نے مجھے ''اُف '' تک نہیں کہا حتی کہ یہ بھی نہیں کہا کہ یہ کام تم نے کیوں کیا؟ اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا؟'' (مسلم شریف ٢/٢٥٣) اسی طرح آدمی جب بڑا ہو جاتا ہے تو وہ عموماً دوسروں کے بچوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتا مگر پیغمبر علیہ السلام سب بچوں سے شفقت کا معاملہ فرماتے تھے ،خود اُن کو سلام کرنے میں پہل فرماتے اور اُن کے چہروں اور سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے تھے۔حضرت جابر بن سمرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ''میں نے ایک دن فجر کی نماز پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ادا کی پھر آپ اپنے دولت خانہ کی طرف تشریف لے چلے تو راستہ میں بچوں نے آپ کا استقبال کیا تو آپ نے ایک ایک بچہ کے رُخسار پر پیار کا ہاتھ پھیرا اور خود میرے رُخساروں پر بھی ہاتھ رکھا تو میں نے آپ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی گویا کہ ابھی آپ نے دست مبارک کسی عطر فروش کی ڈبیا سے نکالاہے''۔ (مسلم شریف ٢/٢٥٦) ظاہر ہے کہ آپ کے اس برتائو کی وجہ سے اُن بچوں کے دلوں میں پیغمبر علیہ السلام کی محبت کس قدر جاگزیں ہوتی ہوگی ا س کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ صلی اللّٰہ علیہ الف الف مرة ۔ منبع جودوسخا : ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ۖ اعلیٰ درجہ کے سخی تھے ،اور رمضان المبارک میں تو اس سخاوت کا ٹھکانا نہیں رہتا