ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
یزل ید عوحتی غربت الشمس''۔ ''امام مسلم نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ آنحضرت ۖ میدانِ عرفات میں تشریف لائے اور قبلہ رخ ہو کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا''۔ علامہ طحطاوی مراقی الفلاح کے حاشیہ میں نمازِ استسقاء کے سلسلۂ بیان میں فرماتے ہیں : '' ویقوم الامام مستقبل القبلة حال دعائہ لانہ افضل واقرب الاجابة''(طحطاوی ص٣٠١ ) '' اور امام بوقتِ دُعا قبلہ رُخ ہوکر کھڑا ہو کیونکہ قبلہ رُخ ہوکرکھڑے ہونا افضل بھی ہے اور دعا کی قبولیت کا باعث بھی''۔ (مزید تفصیل کے لیے تفسیر قرطبی ج٧ ص٢٢٤ سورة اعراف ملاحظہ فرمائی جائے) فائدہ : مجالس السنیہ شرح اربعین نوویہ علامہ شیخ احمد الفشنی ص٥٨ پر فرماتے ہیں : '' وقال بعضھم مافتح اللّٰہ علٰی ولی الا ھو مستقبل القبلة '' '' اور بعض علماء نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ولی پر کسی معرفت کے بھید کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُسی صورت میں ہوتا ہے جبکہ اُس کا رُخ قبلہ کی جانب ہو۔ '' حکی ان رجلا علم ولدین القرآن علی السواء فکان احدھما یقرأ وھو مستقبل القبلة فحفظ القرآن قبل صاحبہ بسنة ''۔ ''بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے دو لڑکوں کو حفظِ قرآنِ مجید بیک وقت شروح کرایا تو ایک اُن میں سے قبلہ رُخ ہوکر یاد کیا کرتا تھا چنانچہ اس نے اپنے بھائی سے ایک سال پہلے ہی حفظ کرلیا'' ۔ تذییل : نماز میں قبلہ کا تعین کیوں ضروری ہوا؟ اور بھر بیت الحرام کو ہی قبلہ کیوں قرار دیا گیا ؟ اس کا جواب مختصراً یہ ہے : (١) اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دوقوتیں ودیعت فرمائی ہیں : (ا) قوت ِعقلیہ،جو مجردات ومعقولات کا ادراک کرتی ہے۔ (ب)قوتِ خیالیہ ، جو عالمِ اجسام میں تصرف کرتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ قوتِ خیالہ،قوتِ عقلیہ کی مقارنت و مصاحبت سے بازرہتی ہو۔ اسی لیے جب انسان کسی ایسے امر کا تصور کرنا چاہتا ہے جومحض عقلی ہوتو وہ اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اپنے ذہن میں اس امر عقلی کے لیے ایک صورتِ خیالیہ وضع کرے تاکہ وہ صورتِ خیالیہ مدرکہ اس معنے عقلی