ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
شریک رہتا ہے ۔خول جسد جس شکل میں بھی مستحیل ہو جائے ، مقصد یہ ہے کہ عالم قبر وبرزخ کی ساری کارروئی رُوح اور جسد عنصری دونوں پروارد ہوتی ہے چونکہ غیب کی چیز ہے اسلیے ہرایک کونظر نہیں آتی۔ قبروں میں کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ جزا وسزا کی یہ ساری کارروئی رُوح کے ساتھ ہوتی ہے اور رُوح کو ایک اور جسد مہیا کیا جاتا ہے اسی پر جزا وسزا وارد ہوتی ہے۔ (٣) حضور اکرم ۖ مع دیگر حضرات انیباء کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبور شریف میں مخصوص قسم کی حیات سے فائز ہیں جو شخص حضور اکرم ۖ کی مزارِ اقدس پر جاکر صلٰوة وسلام پڑھتا ہے ، آپ بہ نفس نفیس سنتے ہیں اور جواب مرحمت فرماتے ہیں اور دُور سے پڑھا ہوا درود و سلام بذریعہ ملائکہ آپ تک پہنچایا جاتا ہے۔ (٣) حضوراکرم ۖ سمیت تمام انبیاء کرام کو اپنی قبور میں کسی قسم کی حیات حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اُن کے ارواح کوان کی قبروں کے ساتھ کوئی تعلق ہے، عندالقبر الشریف آپ ۖ اُمت کے سلام کو نہیں سنتے اور نہ ہی دُوروالا درود شریف آپ کی ذات اقدس پر پیش کیا جاتا ہے۔ (٤) قبر شریف میں حضوراکرم ۖ کی ذات ِاقدس پر اُمت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ (٤) آپ ۖ کی ذاتِ اقدس پر عرض ِاعمال نہیں ہوتا۔ (٥) حضور اکرم ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا افضل القربات اور اعظم السعادات میں سے ہے۔ (٥) حضوراکرم ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (٦) بہت سے صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ انہوں نے حضوراکرم ۖ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور سلام پڑھے۔ (٦) سوائے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے کسی صحابی سے مزارِ اقدس پر حاضری دینا اور سلام پڑھنا ثابت نہیں ہے۔