ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
تہذیب ہے۔ علامہ اقبال نے اغیار کے تیور دیکھے، حکمت ِافرنگ کے مقصدِ اصلی کو سمجھا، اپنوں کی بے ضمیری دیکھی ،عالمِ اسلام کی بے حسی کو سوچا، اُمّتِ مسلمہ کے سودوزیاں پر نظر کی تو محتاط لہجے میں بولے : میں نہ عارف نہ مجدد نہ فقیہ ہاں مگر عالمِ اسلام پر رکھتا ہوں نظر پھر حالات سے نتائج اخذ کرکے اعتماد و یقین کی پوری قوت سے اس بات کا اظہار کیا : ع فاش ہیں مجھ پر ضمیر فلک نیلی فام اندازِ تکلم کا یہ معجزانہ طرز شاید اس لیے اپنایا گیا کہ یہ بات آپ کے دل کو اپیل کرسکے اور آپ اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ نئی تہذیب جو آزادی افکار ، تعلیم ،مساوات، بے دین سیاست اور آئین جمہوریت کا مجموعہ ہے، اس کا خاکہ اگر دلچسپ ودل فریب ہے تو اس کا ظاہری رنگ بھی اتنا دلنواز ہے کہ ایک ہوش مند انسان بھی نفع و ضرر اور امتیاز ِخیر وشر کی دولت سے محروم ہوجاتاہے اور ہوتابھی یہی آیا ہے۔ مثالِ ماہ چمکتا تھا جن کا داغ سجود خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی تاریخ یہی کہتی ہے کہ فرنگیوں کی دیوبے زنجیر سیاست میں وہی لوگ گرفتار ہوئے جودوں نہاد ،مردہ ضمیر تھے اور ایسے ہی مصلحت کوشوں نے یہ نعرہ لگایا ۔ ع زمانہ باتو نساز د تو باز مانہ بساز یعنی زمانہ کے ساتھ چلنا ہی دانش مندی ہے مگر جنہیں حقائق کا صحیح ادراک تھا اُن کے لیے دین ومذہب اور اسلامی اقدار وروایات سے انحراف کرکے تہذیب ِنو اورحیاتِ تازہ کے غیر صحت مند فلسفۂ حیات کو قبول کرنا تود رکنار اس سے مفاہمت کرنا بھی ممکن نہ تھا، اقبال نے ایسے سلیم الطبع ، غیور اور جرأت مند لوگوں سے کہا : حدیثِ بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز زمانہ باتو نسازد تو با زمانہ ستیز مغربی تہذیب کے خلاف نفرت و مخالفت ، احتجاج وانکار اور تردید وتنقید کا اس قدر شدید اظہار صرف اس لیے نہ تھا کہ وہ اسلامی اصول وضوابط سے متصادم تھی بلکہ اس کی ہر ترکیب میں مکروفریب کی پیوندکاری ، اس کا سچ اور جھوٹ یکساں تھا۔ اس کا ہر فلسفۂ حیات اُمّتِ مسلمہ کی تباہ کاری ، انسانی اقدار کی پامالی اور دنیائے انسانیت پر حکمرانی جیسے پُراسرار فارمولوں پر مشتمل تھا : ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے اُن کی جہاں میں ہے صفتِ عنکبوت اُن کی کمند اور یہ کوئی بات بھی نہ تھی بلکہ خالص ملوکیت و سلطنت کی یہ لازمی صفات تھیں جس کی طرف قرآنی آیت سے