ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
سوچئے ! لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ اس کا صحیح ادرا ک قرآن وحدیث کے مفہوم ومعانی میں تفکر و تدبر کے بغیر ممکن نہیں ۔ علامہ اقبال چونکہ اسلامی فلسفۂ حیات سے اچھی طرح واقف تھے اِس لیے انہیں یہ احساس تھا کہ قرآنی فلسفہ سے بیزاری اورفکر گستاخ کی غلط پاسداری ملک وقوم کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے۔ اس لیے تہذیب ِنو کے والہ وشیدا اور اس کی گھنی چھائوں میں سرپٹ دوڑنے والے فرزندانِ قوم سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ۔ ٹھہرو ! مجھ سے سنو : میںبھی کبھی اس نئی تہذیب کی راہوں کا مسافر تھا۔میرے احساسات بھی کل وہی تھے ، جوآج تمہارے ہیں : معلوم ہے مجھ کو ترے احوال، کہ میں بھی مدت ہوئی گزرا تھا اِسی راہ گزر سے اس لیے اگرتم سمجھ سکو تو عرض کروں کہ حیاتِ تازہ کی لذتوں کا انجام دروں ،حسد ، عداوت ، خود فروشی، ہولناکی اورقتل وخونریزی کے سوا اورکچھ نہیں کیونکہ حکمت ِافرنگ کا ہر فلسفۂ حیات ،لذت کام ودہن کے خوش رنگ پردے میں تفریق وتصادم جیسے ابلیسی فلسفہ پر مبنی ہے ۔ اس فلسفہ کی نشوونما کے لیے خواجگی کے کچھ مسکرات بنائے گئے ۔پھر انہیں رفتہ رفتہ ملتِ اسلامیہ کی جڑوں میں پیوست کرنا شروع کردیا گیا جس کے اثرات تفریق ِملل کی صورت میںرونما ہونے لگے ۔ نتیجہ ظاہر تھا ، امتیازِ خیر وشر کا تصور رُخصت ہوا، اچھا کیا ہے ؟ برا کیا ہے ؟ گروہوں اور طبقوں میں تقسیم ہوکر عامة الناس کے لیے گمراہی اور اختلاف وانتشار کا سبب بن گیا جس کی وجہ سے : تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر وقت کی تیز رفتارگردش نے آج ہمیں جس موڑ پر لا کر چھوڑا ہے وہاں ہمیں ''خوب'' و''ناخوب'' کے مساوی ہونے یا ''ناخوب''کے ''خوب'' ہونے کا اتنا غم اور افسوس نہیں ،جتنا دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ وقت کے فرعونوں نے ''خوب پر ناخوب''کا لیبل لگاکرمختلف تاویلات وترجیحات یا خطرناک تدبیروں کے ذریعہ ایسے گروہ کی تشکیل کردی جو حصولِ مقصد کو ہی سب سے بالاتر ،زندگی کاحاصل اور کامرانی کی ضمانت تصور کرتے ہیں ۔ کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند تاویل مسائل کا بناتے ہیں بہانہ آج ان حقائق کا مشاہدہ دنیا کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں کیا جا سکتا ہے ۔گائوں کی خانگی زندگی سے لے کرشہر کی تمدنی زندگی تک، ایوانِ سلطنت کی سیاسی فصیلوں سے لے کر رفاہی اداروںاور ملکی دانش گاہوں تک ، کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اقتدار کی رسہ کشی، جنگ وجدل کا منحوس سایہ ، اور مادیت کی گرم بازای نہ ہو۔ ان چیزوں نے اگر ایک طرف ربط وضبط ملت کی کوششوں کو نامرادکیا تو دوسری طرف اخلاقی اقدار وروایات کو پامال کرکے دنیائے انسانیت کو خانہ جنگی اور بارود کے دہانے پہ کھڑا کردیا۔ اقبال کی نگاہِ دوربین میں اسی تبدیلی کا نام نئی