ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2004 |
اكستان |
|
حاجی صاحب کا ذکر کیا ہی نہ جائے لیکن واقعہ اس کے برعکس تھا آپ ان کا نام مبارک حذف کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔اور حضرت حاجی صاحب کے معاملہ میں تو کہیں کوئی ایسی بات ہی سامنے نہیں آتی بلکہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حاجی صاحب قدس سرہ صرف چاہتے ہی یہ تھے کہ دین محفوظ ہو جائے اس سے زیادہ کوئی خواہش نہ تھی اور جیسا کہ گزرا ہے ان کے اور حضرت سیّد احمد شہید کے درمیان طریقہ نقشبندیہ کے ایک اجازت نامہ میں درمیان میں صرف ایک ہی واسطہ تھا۔ دین کے بارے میں ان کے یہی جذبات قربانی اور بے لوثی ہونی چاہیے تھی پھر ساری عمروہ دنیا سے نظر پھیرے رہے ایسی پاک زاہدانہ زندگی بسر کی جویہ ایک تارک الدنیا کی ہوتی ہے ۔ اگرچہ دنیا خود اُن کے پائوں میں رہتی تھی۔ اور اختلاف کے دور میں یکسوئی اختیارکر لینے سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا کہ برائی سے بچ جائیں اور نیکی عنداللہ محفوظ رہے ۔میں نے اپنے قیام دارالعلوم کے دوران جو واقعات سنے تھے اُن میں یہ بھی تھا کہ ایک دفعہ غلطی سے کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی ہوگئی تو آپ نے اُس سے معافی مانگی۔ اہلِ اسلام کے نزدیک ایک امر مسلم ہے جسے ہماری اصول حدیث کی کتابوںمیں جابجا بیان کیا گیا ہے ان علماء کو جو تاریخی مطالعہ کرتے ہیں ا س زریں اصول کو پیش رکھنا چاہیے اور مراتب ِعلما ء و صلحا ء ملحوظ رکھنے چاہئیں جبکہ جرح ِمبہم بھی اصولاً غیر موثر شمار کی گئی ہے وہ اصول یہ ہے : قال تاج السبکی فی ''الطبقات'' فلا ےُلتفت..... الثوری وغیرہ فی ابی حنیفہ وابن ذئب وغیرہ فی مالک وابن معین فی الشافعی والنسائی فی احمد بن صالح ونحوہ ولو اطلقنا تقدیم جرح لما سلم لنا احد من الائمة اذ ما من امام الاوقد طعن فیہ طاعنون وھلک فیہ ھالکون۔ ( طبقات ص ٩٧) وقال الشیخ زکریا ادام اللّٰہ فیوضہ فی مقدمة '' لامع الدراری'' نقلاعن الحافظ زاہد الکوثری رحمہ اللّٰہ وزاد فیہ اسمین فقال وقول الکرابیسی فی احمد وقول الذھلی فی البخاری۔ ( رحمہم اللّٰہ تعالیٰ ) (مقدمة اللامع ص١٣ ) اسی طرح ہر دور کے اہل اللہ حضرات کو بھی سمجھنا چاہیے مثل امتی کمثل المطر لا یدری اولھاخیرام اخرھا (اوکماقال) یہ بھی ملحوظ رکھناچاہیے کہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب بھی حاجی صاحب کے قریب مسجد چھتہ کے حجرہ میں قیام رکھتے تھے اور جب حضرت نانوتوی قدس سرہ دیوبند تشریف لے آئے تو انہوں نے بھی اسی مسجد کے ایک حجرے میں قیام اختیار فرمایا۔ (جیسا کہ تاریخ دیوبند میں تحریر ہے ) ''اور حضرت حاجی صاحب تا حیات مسجد چھتہ میں اپنی جگہ رہتے رہے ہیں اور برابر میںدارالعلوم چلتا رہاہے''۔